بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد نبوی کے علاوہ سلام پڑھنے کا حکم


سوال

کیا  حضورﷺ پر سلام بھیجنے کی اجازت صرف مسجدِنبوی میں ہے؟ یا یہاں بھی اجازت ہے؟ تفصيل کے ساتھ جواب کی گزارش ہے کیونکہ یہ سوال میرا نہیں  ، کسی دوسرے شخص کا ہے‎۔

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالی نے  قرآنِ مجید میں امت کو یہ حکم دیا  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاہ و سلام بھیجیں،  آیت مبارکہ  میں صلاۃ اور سلام کا حکم الگ الگ دیا گیا ہے، صلاۃ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رفعِ درجات کی دعا کی جائے اور سلام کا معنی یہ ہے کہالسلام عليك أيها النبي کہا جائے، گویا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا جاتا ہے اسی طرح رسول اللہ علیہ وسلم کو بھی سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اور یہ حکم صرف مسجد نبوی کے ساتھ یا قبر اطہر کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ مسلمان دنیا میں کہیں بھی ہے یہ حکم اس کے لیے ہے؛اس لیے کہ حدیث میں ہے :بے شک اللہ تعالی کے کچھ فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھے پہنچاتے ہیں  ،اور ایک اور حدیث میں ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص میرے قبر کے پاس درود وسلام پڑھتا ہے اس کو میں خود سنتا ہوں اور جو دور سے درود وسلام پڑھتا ہے تو اس کا درود وسلام  فرشتے میرے پاس پہنچاتے ہیں ،تاہم  مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے سلام پیش کرنےمیں خطاب کا صیغہ استعمال نہ  کیا جائے ،بلکہ الصلاة والسلام على رسول اللهکے الفاظ سے درود و سلام پڑھا جائے  یا صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا جائے۔

حدیث میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا ‌أبلغته» . رواه البيهقي في شعب الإيمان."

(مشکاۃ المصابیح ،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی،ج:۱،ص:۲۹۵،المکتب الاسلامی)

وفيه أيضاّ:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام» . رواه النسائي والدارمي."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی،ج:۱،ص:۲۹۱،المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعنه)  أي: عن ابن مسعود (قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لله ملائكة» )  أي: جماعة منهم ( سياحين في الأرض ) أي: سيارين بكثرة في ساحة الأرض من ساح: ذهب، في القاموس: ساح الماء جرى على وجه الأرض، ( يبلغوني ) : من التبليغ، وقيل: من الإبلاغ، وروي بتخفيف النون على حذف إحدى النونين، وقيل: بتشديدها على الإدغام، أي: يوصلون (" من أمتي السلام ") : إذا سلموا علي قليلا أو كثيرا، وهذا مخصوص بمن بعد عن حضرة مرقده المنور ومضجعه المطهر، وفيه إشارة إلى حياته الدائمة وفرحه ببلوغ سلام أمته الكاملة، وإيماء إلى قبول السلام حيث قبلته الملائكة وحملته إليه عليه السلام، وسيأتي أنه يرد السلام على من سلم عليه."

(کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی،ج:۳،ص:۷۴۳،دارالفکر)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں