بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں الکحل والا سینیٹائزر استعمال کرنا


سوال

مسجدوں میں الکوحل والا سینیٹائزر کا استعمال کرنے کا حکم کیا ہے؟

جواب

سینیٹائزر کے استعمال سے متعلق شرعی حکم سے پہلے  تمہید کے طور پر عرض ہے کہ :

الکحل کی دو قسمیں ہیں:

(1) ایک وہ جو منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب سےحاصل کی گئی ہو،  یہ بالاتفاق ناپاک  وحرام ہے، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت ناجائز ہے.

(2) دوسری  وہ جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کی گئی ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے بشر ط یہ کہ نشہ آور نہ ہو۔

عام طور پر ادویات ، پرفیوم اور دیگر مرکبات  میں جو الکحل استعمال ہوتی ہے وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، لہذا  کسی چیز  کے بارے میں جب تک  تحقیق سے ثابت  نہ ہوجائے کہ اس  میں  پہلی قسم (منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب )سے حاصل شدہ الکحل ہے ، اس وقت تک اس کے استعمال کو  ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے۔

 انگوراور کھجور  کے علاوہ  دیگر ذرائع سےحاصل شدہ  ایتھائل الکحل کا استعمال ذاتی استعمال کی صنعت  کی خارجی استعمال کی مصنوعات   میں جائز ہے ،  مثلاً ٹوتھ پیسٹ، خوشبویات  ہاتھ صاف  کرنے کی چیزیں، ذاتی استعمال کی دیگر اشیاء وغیرہ ، جب کہ ان ہی مصنوعات میں اگر انگور  یا کھجور سے حاصل شدہ  ایتھائل الکحل استعمال ہو تو ان کا استعمال جائز نہیں ہے۔

موجودہ دور میں جو الکوحل پرفیومز،  سیناٹائزرمیں  استعمال ہوتی ہے، وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کی جاتی، بلکہ  دیگر اشیاء سے بنائی جاتی ہے، یہ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے،  بلکہ  اس قسم کی  الکوحل   پینے کے قابل بھی نہیں ہوتی اور پینے کی صورت میں موت کا سبب بن سکتی ہے۔

        لہذاکرونا وائرس یا کسی بھی بیماری  سے بچاؤ کے لیےایسے   SANITIZER"  کا استعمال جائز ہے، یہ ہاتھ اور کپڑے پر لگے ہونے کی صورت میں نماز بھی ادا ہوجائے گی,اور مساجد میں اس کا استعمال جائز ہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع". (كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں