بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق اگر دوسری رکعت کے قعدہ میں شامل ہو تو اس پر التحیات کا پڑھنا واجب ہے


سوال

اگر نمازی جماعت کے  ساتھ  دوسری رکعت کے قعدہ میں شامل ہو تو کیا وہ تشہد پڑھے یا خاموش رہے؟

جواب

 اگر کوئی شخص دوسری رکعت کے قعدہ میں آکر امام کے ساتھ  شامل ہوجائے  تو  اس پر تشہد کا پڑھنا واجب ہے ،اسے خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے ،اب اگر  اس کے التحیات مکمل پڑھنے سے پہلے ہی امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے  تو اس مقتدی کو چاہیے  کہ ذرا جلدی سے التحیات پڑھ کر پھر تیسری رکعت کے لیے  کے لیے کھڑا ہو، التحیات چھوڑنا درست نہیں ہے اور اگر اس موقع پر التحیات چھوڑ دی اور التحیات پڑھے بغیر کھڑا ہوگیا تو واجب چھوٹنے کی وجہ سے اس کی نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):

"(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه لأنه سنة والناس عنه غافلون.

 (قوله: فإنه لا يتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد (قوله: لوجوبه) أي لوجوب التشهد كما في الخانية وغيرها، ومقتضاه سقوط وجوب المتابعة كما سنذكره وإلا لم ينتج المطلوب فافهم (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح، ونازعه ط والرحمتي، وهو مفاد ما في شرح المنية حيث قال: والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابعه لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية، بخلاف ما إذا عارضتها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب. اهـ.

الفتاوى الهندية (1/ 90):

"إذا أدرك الإمام في التشهد وقام الإمام قبل أن يتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاة قبل أن يتم المقتدي التشهد فالمختار أن يتم التشهد. كذا في الغياثية وإن لم يتم أجزأه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں