بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مارشل آرٹس کھیلنے کا حکم


سوال

کیا (مکسڈ مارشل آرٹس) حلال ہے یا حرام؟ اس کھیل میں منہ پر مارنا ہوتا ہے، کیا یہ کھیل جائز ہوتا ہے؟ یہ کھیل بہت سے مدرسوں میں بھی کھیلا جاتا ہے، برائے مہربانی وضاحت کیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ شرعاً کوئی بھی کھیل کھیلنا مطلقاً جائز نہیں ہے، بلکہ کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں: 

  1.   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔
  2. اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
  3.  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔
  4. کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

اگر کسی کھیل میں مذکورہ بالا شرائط پائی جائیں، تو وہ کھیل جائز ہوگا ورنہ نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب   مارشل آرٹس میں چہرہ پر بھی مارا جاتا ہے، اور چہرہ  پر مارنے کی احادیث مبارکہ میں ممانعت آئی ہے، لہٰذا ایسا کھیل کھیلنے کی شرعاً گنجائش نہیں ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔

مشكاۃ المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا ضرب أحدكم فليتق الوجه» . رواه أبو داود".

(2/ 1079،  کتاب الحدود، باب التعزیر، الفصل الثاني، ط: المکتب الإسلامي بیروت)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، 4 /435 ط:  دار العلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں