بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے بجائے کسی علاقے کی نجی و غیرسرکاری کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ اور عید کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں عید اور رمضان پشاور کےایک مفتی کے زیرنگران کمیٹی کے اعلان کے مطابق ہوتے ہیں، کیایہ طریقہ درست ہے؟اور اس طرح روزے اور عید کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ یا پھر ہمیں حکومت کی جانب سے متعین"مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی " کے اعلان کے مطابق  ہمیں روزے اور عید کرنا چاہیے؟ راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور مذکورہ علاقے والوں پر رمضان اور عید کے معاملے میں "مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی"کے فیصلے کی پیروی کرنااور اس کے فیصلے کے مطابق روزے رکھنا اور عیدکرنا لازم ہے،کیوں کہ کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو،  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے، تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے،  عمل  کرنا شرعاً واجب ہے،اور پاکستان میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ"  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی"  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذاروزے اور عید کے معاملے میں اس مرکزی کمیٹی کا ہی فیصلہ اور اعلان شرعی طور پر معتبر ہے،اور اس کے فیصلے کی پاس داری کرنا پاکستان کے باشندوں پر لازم ہے۔

نیزمرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ کسی بھی مقامی ، غیرسرکاری اور نجی کمیٹی(چاہے وہ کسی بھی علاقے میں کسی بھی مفتی و عالم یا عام شخص کے زیرنگرانی ہو) کے فیصلے کے مطابق روزے اور عیدکرنا درست نہیں ہے،کیوں کہ "مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی" کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو ولایتِ عامہ بھی حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے، لہذا سائل اور اس کے علاقے والوں کے لیے پشاورکی مذکورہ مقامی ،نجی اور غیرسرکاری کمیٹی کے فیصلے اور اعلان کے مطابق روزہ رکھنا اور عید کرنا درست نہیں ہے۔

         جواہر الفقہ میں ہے:

"اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔"

( مسئلہ رؤیت ہلال، ج:3، ص:484، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

حضرت مولانا مفتی محمود ؒ    "زبدۃالمقال فی رؤیۃالھلال"   میں  تحریر فرماتےہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدة المقال في رؤیة الهلال، بحواله خیر الفتاوی، ج:4، ص:118، ط:مکتبة الخیر،ملتان)

   نیل الأوطار میں  ہے:

"وثانيها: أنه لايلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم؛ لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصوم، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم،ج:4، ص:230، ط: دارالحديث، مصر)

       فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الإشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً له."

(كتاب الصوم، الفصل الثاني، بحث:رؤية الهلال،ج:3، ص:366،ط:مكتبةزکریا، دیوبند)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں