بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کے لیے سرخ رنگ کے کپڑے پہننا


سوال

کیا ایک مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ پورے لال رنگ کے کپڑے پہنے؟

جواب

مردوں کے لیے لباس سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ وہ ایسا لباس پہنیں جس لباس میں فاسقوں اور کافروں سے مشابہت نہ  ہو، اور نہ وہ زنانہ لباس کی طرح ہو، اسی طرح وہ کسم یا زعفران سے رنگا ہوا بھی نہ ہو۔ 

باقی   مردوں کے  لیے خالص سرخ رنگ کا لباس  (جس میں دوسرا بالکل نہ ہو) پہننے کی ممانعت بعض روایات میں آئی ہے، اس ممانعت کی حیثیت کے حوالے سے فقہاءِ کرام کے مختلف اقوال ہیں؛ بہرحال خالص سرخ رنگ میں عورتوں  کے لباس سے کسی قدر  مشابہت پائی جاتی  ہے،  اس  لیے اس کا مکروہ ہونا راجح ہے، لہٰذا مردوں کو  خالص سرخ رنگ کا لباس  استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ البتہ اگر اس میں کسی اور رنگ کی آمیزش ہو یا وہ دھاری دھار ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ نیز بہت زیادہ شوخ رنگ  اور اعتدال سے زیادہ کڑھائی اور سنگھار والے کپڑے پہننا بھی مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سرخ کپڑے میں نماز 

سوال: سرخ کپڑوں میں مثلا سرخ قمیص ، کوٹ، تہبند، پہن کر نماز ادا کرنا شرعا کیسا ہےکیا نماز مکروہ ہوتی ہے؟

جواب: خالص سرخ کپڑا مرد کے لیے ممنوع ہے، پس ایسا کپڑا پہن کر نماز بھی مکروہ ہوگی بشرطیکہ رنگ پاک ہو ، اگر رنگ ناپاک ہو تو جب تک اس کو اس قدر نہ دھو لیا جائے کہ رنگ کٹنا بند ہو جائے اس کو پہن کر نماز قطعا درست نہ ہوگی۔"

(باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیہا ، جلد ۶ ص: ۶۶۴، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره لبس المعصفر والمزعفر الأحمر والأصفر للرجال) مفاده أنه لايكره للنساء (ولا بأس بسائر الألوان) وفي المجتبى والقهستاني وشرح النقاية لأبي المكارم: لا بأس بلبس الثوب الأحمر اهـ. ومفاده أن الكراهة تنزيهية، لكن صرح في التحفة بالحرمة؛ فأفاد أنها تحريمية وهي المحمل عند الإطلاق قاله المصنف. قلت: وللشرنبلالي فيه رسالة نقل فيها ثمانية أقوال منها: أنه مستحب.

(قوله: لا بأس بلبس الثوب الأحمر) وقد روي ذلك عن الإمام كما في الملتقط اهـ ط (قوله: ومفاده أن الكراهة تنزيهية)؛ لأن كلمة "لا بأس" تستعمل غالباً فيما تركه أولى، منح .(قوله: في التحفة) أي تحفة الملوك، منح. (قوله: فأفاد أنها تحريم إلخ) هذا مسلم لو لم يعارضه تصريح غيره بخلافه، ففي جامع الفتاوى: قال أبو حنيفة والشافعي ومالك: يجوز لبس المعصفر، وقال جماعة من العلماء: مكروه بكراهة التنزيه، وفي منتخب الفتاوى: قال صاحب الروضة: يجوز للرجال والنساء لبس الثوب الأحمر والأخضر بلا كراهة. وفي الحاوي الزاهدي: يكره للرجال لبس المعصفر والمزعفر والمورس والمحمر: أي الأحمر حريراً كان أو غيره إذا كان في صبغه دم وإلا فلا، ونقله عن عدة كتب، وفي مجمع الفتاوى: لبس الأحمر مكروه، وعند البعض لايكره، وقيل: يكره إذا صبغ بالأحمر القاني؛ لأنه خلط بالنجس. وفي الواقعات مثله. ولو صبغ بالشجر البقم لايكره. ولو صبغ بقشر الجوز عسلياً لايكره لبسه إجماعاً اهـ فهذه النقول مع ما ذكره عن المجتبى والقهستاني وشرح أبي المكارم تعارض القول بكراهة التحريم إن لم يدع التوفيق بحمل التحريم على المصبوغ أو بالنجس أو نحو ذلك، (قوله: وللشرنبلالي فيه رسالة) سماها "تحفة الأكمل والهمام المصدر لبيان جواز لبس الأحمر"، وقد ذكر فيها كثيراً من النقول، منها ما قدمناه، وقال: لم نجد نصاً قطعياً لإثبات الحرمة، ووجدنا النهي عن لبسه لعلة قامت بالفاعل من تشبه بالنساء أو بالأعاجم أو التكبر، وبانتفاء العلة تزول الكراهة بإخلاص النية لإظهار نعمة الله تعالى، وعروض الكراهة للصبغ بالنجس تزول بغسله، ووجدنا نص الإمام الأعظم على الجواز ودليلاً قطعياً على الإباحة، وهو إطلاق الأمر بأخذ الزينة، ووجدنا في الصحيحين موجبه، وبه تنتفي الحرمة والكراهة بل يثبت الاستحباب اقتداءً بالنبي صلى الله عليه وسلم اهـ ومن أراد الزيادة على ذلك فعليه بها. أقول: ولكن جل الكتب على الكراهة كالسراج والمحيط والاختيار والمنتقى والذخيرة وغيرها، وبه أفتى العلامة قاسم. وفي الحاوي الزاهدي: ولايكره في الرأس إجماعاً، (قوله: ثمانية أقوال) نقلها عن القسطلاني، (قوله: منها أنه مستحب) هذا ذكره الشرنبلالي بحثاً كما قدمناه، وليس من الثمانية". 

(فصل فی اللبس، کتاب الحظر والاباحۃ ، جلد ۶، ص:۳۵۸، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں