بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض آدمی کا نفلی صدقہ دینا


سوال

میرے اوپر کافی قرضہ ہے، اب میرا کام بہتر ہو ا،میں نے کچھ قرض اتار بھی دیا  ، میں 25سے30 ہزار روپےہرماہ اللہ کی راہ میں خرچ  کر تاہوں ،اس امید پر کہ اللہ میرا قرضہ اتاردےگا اور میری آمدنی میں   اضافہ کرے گا تو میں قرض بھی اتار دوں گا ،لیکن کبھی کبھی میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے میں اس رقم کو اپنا قرضہ اتارنے کے لیے استعمال کیا کروں، آیا ایسا ٹھیک ہے یا میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتارہوں اس امید پر کہ اللہ  مجھے قرض اتارنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔

جواب

واضح رہے كہ قرض کی  ادائیگی  مقروض پر واجب ہوتی ہے، جب کہ نفلی صدقہ  مستحب عمل ہے، لہذا صورت ِ  مسئولہ  میں سائل كوچاہیےكہ سب سے پہلے قرض ادا کرے،  اس کے بعد نفلی صدقہ دے،   البتہ اگر قرض خواہ فوری مطالبہ نہ کررہے ہوں اور قرض  کی ادائیگی کی مدت باقی ہو اور نفلی صدقے کی وجہ سے قرض کی ادائیگی میں مشکلات نہ ہوں تو قرض کی ادائیگی سے پہلے نفلی صدقہ بھی دیا جاسکتاہے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"باب لا صدقة إلا عن ظهر غنى «ومن تصدّق وهو محتاج، أو أهله محتاج، أو عليه دين، فالدين أحق أن يقضى من الصدقة، والعتق والهبة، وهو رد عليه ليس له أن يتلف أموال الناس» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ أموال الناس يريد إتلافها، أتلفه الله» إلا أن يكون معروفا بالصبر، فيؤثر على نفسه ولو كان به خصاصة «كفعل أبي بكر رضي الله عنه،» حين تصدق بماله «وكذلك آثر الأنصار المهاجرين ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن إضاعة المال» فليس له أن يضيع أموال الناس بعلة الصدقة. "

حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال: أخبرني سعيد بن المسيب، أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى، وابدأ بمن تعول»."

( كتاب الزكاة، باب: لاصدقه الا عن ظهر غنى، ج: 2، ص: 518، رقم: 1360، ط: دارابن كثير)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"ومن تصدق وهو محتاج أو أهله محتاج أو عليه دين فالدين أحق أن يقضى من الصدقة والعتق والهبة وهو رد عليه ليس له أن يتلف أموال الناس هذا كله من الترجمة وقع تفسيرا لقوله: (لا صدقة إلا عن ظهر غنى) ، والمعنى أن شرط التصدق أن لا يكون محتاجا ولا أهله محتاجا ولا يكون عليه دين فإذا كان عليه دين فالواجب أن يقضي دينه، وقضاء الدين أحق من الصدقة والعتق والهبة لأن الابتداء بالفرائض قبل النوافل، وليس لأحد إتلاف نفسه وإتلاف أهله وإحياء غيره، وإنما عليه إحياء غيره بعد إحياء نفسه وأهله إذ هما أوجب عليه من حق سائر الناس."

( كتاب الزكاة، باب لا صدقة إلا عن ظهر غنى، ج: 8 ص: 293، ط: دارالفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں