بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

رقم دے کر بدلے میں زائد رقم لینا


سوال

میرا قسطوں کا کاروبار ہے، آج ایک موٹر سائیکل قسطوں پر دینا تھا ،میں نے موٹر سائیکل کی جگہ خریدنے والے کو موٹر سائیکل کی رقم دی ۔

آپ یہ بتائیں  کہ اس رقم کے بدلہ میں جو رقم ہم نے قسطوں کے طور پرطے کی ،وہ جائز ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب سائل نے موٹر سائیکل خرید نے  کے لئے آنے والے شخص کو موٹرسائیکل نہ اپنی دکان سے دی اور نہ ہی کسی اور سے خرید کر کے قبضہ کے بعد  موٹرسائیکل فروخت کی،بلکہ مذکورہ شخص  کو موٹرسائیکل کے بجائے محض رقم دی ہے، تو  اب سائل کےلئے اس رقم کو موٹرسائیکل کی قیمت شمار کرکے قسطیں  مقرر کرکے اپنی اداکردہ  رقم سے زائد رقم کا لینا سود ہونے کی وجہ سے نا جائز و حرام ہے۔سائل صرف اپنی اداکردہ  رقم  واپس لینے کا حق رکھتا ہے۔ البتہ قسطوں کی جائز صورت یہ ہے کہ سامان کو  پہلے خود  خرید لے  پھر قبضہ کر کے دسرے خریدار کو   قسطیں  متعین کرکے  بیچ دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. و شرعًا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية و منه المصوغ (جنسًا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (و يشترط) عدم التأجيل و الخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنًا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) و هو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا و إن) وصلية (اختلفا جودةً و صياغةً) لما مرّ في الربا.

(قوله: و إن اختلفا جودةً و صياغةً) قيد إسقاط الصفقة بالأثمان؛ لأنه لو باع إناء نحاس بمثله و أحدهما أثقل من الآخر جاز مع أن النحاس و غيره مما يوزن من الأموال الربوية أيضا؛ لأنّ صفة الوزن في النقدين منصوص عليها فلاتتغير بالصنعة و لايخرج عن كونه موزونًا بتعارف جعله عدديًّا لو تعورف ذلك بخلاف غيرهما، فإن الوزن فيه بالعرف فيخرج عن كونه موزونًا بتعارف عدديته إذا صيغ و صنع، كذا في الفتح، حتى لو تعارفوا بيع هذه الأواني بالوزن لا بالعدد لايجوز بيعها بجنسها إلا متساويًا، كذا في الذخيرة نهر."

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:257، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 

 


فتوی نمبر : 144610101274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں