بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مالدار شخص نے جو بھیک مانک کر پیسے حاصل کیے کیا اس کا واپس کرنا واجب ہے؟


سوال

مالدار شخص جو کمانے پر قادر ہے،اگر اس نے  اپنے آپ کو غریب مسکین بتاکر بھیک مانگ کر پیسے حاصل  کیےتو جو  اس نے  امداد،صدقۂ نافلہ ،اور صدقۂ جاریہ اور ہدیہ کے طور پر پیسے حاصل کیے ہیں کیا اس کے ذمے ان پیسوں کو لوٹانا واجب ہے؟

جواب

 جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن بقدرِ ضرورت، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔

اگر کسی  شخص نے مالدار ہونے یا بغیر ضرورت کے اپنے آپ کو غریب یا ضرورت مند ظاہر کر کے بھیک مانگی تو اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا،لیکن  لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ  جو  اس نے صدقاتِ نافلہ ،  امداد،  ہدیہ وغیرہ کے طور پر پیسے حاصل کیے ہیں ان کا واپس کرنا واجب نہیں ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"(‌1041) حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى. قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من سأل الناس أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا. فليستقل أو ليستكثر."

(كتاب الزكاة،باب كراهة المسألة للناس،ج:2،ص:720،ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

مسلم شریف میں ہے:

"عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً".

( كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة،ج:2،ص:722، رقم الحديث: 1044، ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (الكاساني) میں ہے:

"وأما ‌صدقة ‌التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة."

(كتاب الزكاة،فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه،ج:2،ص:47،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں