کیا ’’کو ایجوکیشن‘‘ (مخلوط تعلیمی نظام) میں کلاس فیلوز لڑکے اور لڑکیاں آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرسکتے ہیں کہ نہیں؟
مخلوط تعلیمی نظام جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں مندرجہ ذیل مفاسد کی وجہ سے ناجائز ہیں:
1- کئی بار ایسی نوبت بھی پیش آتی ہے کہ جس میں کسی ایک کمرے میں اجنبی عورت خواہ ٹیچر ہو یا طالبہ ایک کمرے میں ساتھ ہوتے ہیں اور کوئی تیسرا نہیں ہوتا۔ایسی خلوت کسی اجنبی عورت کے ساتھ جائز نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے:
"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاء! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ۔ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَی کَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَی النِّسَاء عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ".
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ حمو (یعنی شوہر کا باپ، بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا :حمو تو موت ہے۔ اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے عورتوں کے پاس داخل ہونے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی)
"وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا لا يبتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحاً أو ذا محرم " . رواه مسلم". (2/203)
2- اس میں اجنبی عورتوں کے چہرے کی طرف بھی دیکھنے کی نوبت پیش آتی ہے۔ اور کسی مرد کے لیے شرعاً جائز نہیں کہ بلا ضرورتِ شدیدہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھے۔
لہذا ایسے تعلیمی ادارے جہاں اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ہو،قائم کرنا جائز نہیں۔شرعی پابندی کے علاوہ معاشرت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ تعلیمی ادارے جدا جدا ہوں۔
پڑھنے والے لڑکوں کے لیے لازم ہے کہ مطلوبہ شعبہ سے متعلق جب تک کوئی دوسرا ادارہ میسر ہو جہاں اختلاط نہ ہو وہاں تعلیم حاصل کریں، خواہ وہ ادارہ زیادہ مشہور نہ ہو۔ اور اگر ایسا ادارہ میسر نہ ہو اور مخلوط تعلیمی ادارے میں ہی تعلیم حاصل کرنا ناگزیر ہو تو درج ذیل امور کا لحاظ کریں:
1-کسی بھی اجنبی عورت خواہ ٹیچر ہوں یا طالبہ کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکیں اور نہ ہی اکیلے ملاقات کریں۔
2- خواتین کے چہرے کی طرف نگاہ نہ کی جائے۔
3-نیز لڑکیوں کے ساتھ پڑھائی کرنے کے بجائے صرف لڑکوں کے ساتھ مل کر ہی پڑھائی کریں۔
4- مجبوراً کبھی کسی غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کرنا جائز ہے، بلاضرورت جائز نہیں،جوان لڑکے اور لڑکیوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنے کی بھی اجازت نہیں،اسی طرح ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینے کی کوئی گنجائش نہیں، سخت گناہ ہے، بلاضرورت دیکھنا بھی جائز نہیں حتیٰ الامکان حفاظتِ نظر بھی ضروری ہے۔
’’ ... إلامن أجنبیة فلایحل مس وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ إلی قوله: وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخری کراهة تحریم ‘‘ …
( درمختار مع الشامی : ۲۶۰ / ۵)
قال العلامة الحصکفي رحمه اللّٰه تعالیٰ:
"وفي الشرنبلالیة معزیًا للجوهرة: و لایکلم الأجنبیة إلا عجوزًا عطست أوسلمت فیشمتها و یرد السلام علیها و إلا لا، انتهی. وبه بان أن لفظة لا في نقل القهستاني ویکلمها بما لایحتاج إلیه زائدة، فتنبه".
وقال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰه تعالیٰ:
"(قوله:زائدة) ببعده قوله في القنیة رامزًا: ویجوز الکلام المباح مع امرأَة أجنبیة اهـ و في المجتبی رامزاً: و في الحدیث دلیل علی أنه لا بأس أن یتکلم مع النساء بما لایحتاج إلیه، و لیس هذا من الخوض في ما لایعنیه، إنما ذلك في کلام فیه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول علی العجوز، تأمل. و تقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة علی الراحج، و مرالکلام فیه فراجعه".
(ردالمحتار۲۳۶؍۵)
"عن یحی بن أبي کثیر قال: بلغني أنه یکره أن یسلم الرجل علی النساء، والنساء علی الرجل".
(شعب الإیمان، فصل في السلام علی النساء، دار الکتب العلمیة بیروت ۶/۴۶۰، رقم: ۸۸۹۶)
"قال: و أخبرنا معمر، قال: کان قتادة یقول: أما امرأة من القواعد فلا بأس أن یسلم علیها، وأما الثانیة فلا". (شعب الإیمان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211201511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن