بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکانات کے اوپر بنی ہوئی مسجد کا حکم


سوال

 ہمارے محلے کی ایک مسجد ہے جس کے گراؤنڈ فلور میں تین سے چار مکانات ہیں، ایک امام صاحب کا تین باقی لوگوں کے، صورتِ مسئولہ میں آیا یہ مسجد کے حکم میں ہے یا مصلے کے حکم میں ہو گی؟ اور کیا ایسا کرنا مسجد کے نیچے گھر بنانا جائز ہے؟ اور موجودہ مسجد کے اندر نماز پڑھنے سے مسجد کا ثواب ہوگا یا مصلے کا؟ اور اس کا کیا حل ہے؟ وہ گھر رہنے دیے جائیں یا کوئی اور حکم ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر وقف زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے  نیچے والے حصے میں    دکانیں یا مکانات بنائے جائیں، اور یہ دکانیں اور مکانات  مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہو ں، تو اس کی  گنجائش ہے، اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی،  لیکن مذکورہ دکانوں اور مکانوں  کا استعمال مسجد کے تقدس اور احترام کو ملحوظ رکھ کر کرنا ہوگا۔ یعنی ان مکانات میں قضاءِ حاجت یا میاں بیوی کے ملنے اور حائضہ عورت کے آنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور مستقل گھر بنانے میں جہاں بیت الخلا بھی ہو اور اہلِ خانہ سمیت رہائش اختیار کی جائے، مسجد کے آداب اور تقدس کا خیال نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہوگی، اور دکانوں میں بھی ضروری ہوگا کہ غیر شرعی کام نہ کیا جائے اور کوئی غیر شرعی چیز نہ رکھی جائے۔

اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر نیچے نہ دکانیں بنائی جاسکتی ہیں  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ابتدائی تعمیر کے وقت بھی دکانیں مسجد کے احاطہ یعنی  نماز پڑھنے کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد بنائی جائیں، عین اس کے نیچے نہ بنائی جائیں۔

نیز اگر پہلے سے بنی ہوئے مکانات کے اوپر مسجد بنائی جائے  اور وہ مکانات شخصی ملکیت ہوں، مسجد کے مصالح کے لیے وقف نہ ہوں  تو  ایسی صورت میں اس کے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی،  بلکہ یہ عرفی مسجد ہے، کیوں کہ مسجدِ شرعی بننے کے لیے شرط ہے کہ اس مسجد کے اوپر یا نیچے مصالحِ مسجد کے علاوہ کوئی دوسری چیز تعمیر نہ ہو، اس لیے کہ مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، لہذا   اس میں نماز باجماعت پڑھنا درست ہے، البتہ اس کا ثواب شرعی مسجد کا نہیں  ہوگا اور اس میں اعتکاف بھی درست نہیں ہوگا۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ."

(5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية."

(4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں