بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان بنانے کے لیے زکاۃ دینا


سوال

ایک صاحب جو مالی طور پر کافی کمزور ہیں کوئی بینک بیلنسں نہیں، کوئی زیور نہیں، کافی قرض بھی ہے، اپنا گھر بھی نہیں ہے ،ایک قریبی رشتے دار نے اپنی چھت  دی تھی، کہ اس پر کمرہ باتھ روم اور    کچن  بنائیں اور رہیں تاکہ  کرائےسے جان چھوٹ جائے گی اور یہ آپ کا ہی ہوگا ،انھوں نے ایک کمرہ اور کچن بنایا ہے اور کچن کی چھت ابھی ڈالنی ہو اور ایک کمرہ اور باتھ روم ٹوائیلٹ ابھی بننا باقی ہیں اور پیسے بلکل بھی نہیں ہیں ، معلوم یہ کرنا ہے کہ ان صاحب کو گھر مکمل کرنے کے لیے زکوۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ تاکہ وہ اپنا گھر بنا سکیں اور کرائےسے بچیں ۔

جواب

اگر مذکورہ شخص واقعہً مستحقِ زکوٰۃ  ہے (یعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید ، ہاشمی ہے)  تو اس شخص کے لیے زکوٰۃ کی رقم  لینا جائز ہے، اور اس کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 

زکوٰۃ کی رقم کا مالک بن جانے کے بعد مذکورہ  شخص بقایا تعمیری کام کرواسکتاہے۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولايشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولايدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي".

( باب المصرف، کتاب الزکاة،ج:1،ص:189، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں