بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبوری کی صورت میں بیوہ عورت عدت کے دوران کن اوقات میں گھر سے نکل سکتی ہے؟


سوال

 بیوہ عدت ِ وفات میں ہے اور کوئی کمانے والانہیں جو اس کے گھر کا نان نفقہ برداشت کرسکے، تو کیا وہ کمانے کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے؟ اور کن اوقات میں وہ گھر سے باہر جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً بیوہ عورت کاکوئی کمانے والا نہیں  ہے،اور کمانے کے لیے نہ نکلنے کی صورت میں تنگ دستی اور معاشی پریشانی کا یقین ہےتو پردے کے ساتھ دن کے اوقات میں باہر نکلے،اور رات کو اپنے مقام پر آجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها (طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

(قوله: في الجديدين) أي الليل والنهار فإنهما يتجددان دائما ط.

(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص: 536، ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق".

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ج:4، ص:166، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتای رحیمیہ میں ہے:

تنگدست عورت پر بھی عدت وفات لازم ہے:

"(سوال ۴۶۴ ) متوفی عنہاز و جہا پر (یعنی جس عورت کا شو ہر وفات پا جائے اس پر ) عدت ضروری ہے لیکن ایک بیوہ عورت کی ایسی حیثیت نہیں ہے کہ عدت میں بیٹھ کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکے تو کیا ایسی عورت پر بھی عدت میں بیٹھنا ضروری ہے؟ اگر نہ بیٹھے تو گناہگار ہوگی؟ اگر کوئی شخص اس  بیوہ  کی مدد کرے اور اس کو عدت میں بٹھائےتو یہ کام باعث ثواب ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

(الجواب ) ایسی عورت پر بھی عدت میں بیٹھنا اور چار مہینے دس روز تک سوگ کرنا واجب ہے اگر حمل سے ہو تو بچہ پیدا ہونے تک عدت میں بیٹھنا ضروری ہے۔ بغیر شرعی عذر کے گھر سے نکلنا حرام ہے ، عدت میں نہیں بیٹھے گی تو شرعی قانون کی خلاف ورزی لازم آئے گی اور سخت گناہگار ہوگی ۔ گذران کی صورت نہ ہو تو رشتے داروں کو چاہئے کہ انتظام کریں جو بھی مدد کرے گا ثواب کا مستحق ہوگا۔ اگر کوئی انتظام نہ ہو سکے تب بھی عدت ساقط نہ ہوگی البتہ اتنی اجازت ہے کہ ملازمت کے لئے دن میں باہر نکلے رات کو اپنے مقام پر آجائے ۔ درمختار میں ہے (و معتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت اكثر الليل في منزلها لان نفقتها عليها فتحتاج للخروج ،حتى لو كان عندها كفايتها صارت كا لمطلقة فلا يحل لها الخروج ،فتح .الخ وفى الشامي والحاصل ان مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلک صرف الزمان خارج بيتها اه ( ج ۲ ص ۸۵۴ باب العدة) فقط والله اعلم بالصواب."

(کتاب العدت، 7 /411، ط: دارالاشاعت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں