بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق اپنی نماز کیسے مکمل کرے؟


سوال

جب آدمی سے ایک رکعت یا کئی رکعتیں قضا ہو جائیں تو بقیہ کے  پڑھنے کا مکمل طریقہ  بتائیں خاص کر مغرب کی نماز میں اور قرأت کی مکمل مقدار اور طریقہ بتائیں!

جواب

مسبوق جس کی ایک یا زیادہ  رکعتیں رہ گئی ہوں اسے  اپنی باقی ماندہ نماز ادا کرنے میں دو باتوں کی رعایت کرنی ہوگی ایک تلاوت وقراءت دوسرا تشہد  دونوں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

نماز کے دوران امام کو جس رکن میں پائے تکبیرِ تحریمہ کہہ کر مقتدی جماعت  میں شامل ہوجائے، تکبیرِ تحریمہ کہنے کے بعد ثناء پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ امام کی نماز مکمل ہونے کے بعد مسبوق (جس کی کوئی رکعت امام کے ساتھ ادا کرنے سے رہ گئی ہو) اپنی بقیہ نماز اس طرح مکمل کرے گا کہ وہ امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء،  پھر سورۂ فاتحہ، فاتحہ  کے بعد کوئی سورت پڑھ کر رکوع کرے گا۔  اگر ایک رکعت رہ گئی ہو تو ایک رکعت کے بعد سلام پھیر دے گا، اور اگر دو رہ گئیں ہوں تو امام کے دونوں سلام کے بعد مسبوق اپنی دونوں رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورت بھی پڑھے گا۔ اور اگر تین رکعات رہ گئی ہوں تو پہلی دو رکعات میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورت بھی پڑھے گا جب کہ تیسری رکعت میں صرف سورۂ  فاتحہ پڑھے گا۔

یہ حکم تو تلاوت کے اعتبار سے تھا، قعدہ (تشہد میں بیٹھنے) سے متعلق حکم درج ذیل ہے:

دو یا چار رکعت والی فرض نماز میں دو رکعت رہ گئی ہوں تو امام کے بعد دونوں رکعات ادا کرکے آخر میں قعدہ کرنا ہوگا، البتہ مغرب کی نماز میں اگر دو رکعات رہ گئی ہوں تو ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا ہوگا؛ کیوں کہ مسبوق کی یہ دوسری رکعت ہوگی۔ اور چار رکعات والی فرض نماز میں تین رکعات رہ جانے کی صورت میں ایک رکعت ادا کرنے کے بعد قعدہ کرنا ہوگا؛ کیوں کہ یہ مسبوق کی دوسری رکعت ہوگی، جس کا قعدہ  واجب ہے، پھر آخری رکعت میں قعدہ کرنا ہوگا، اور مغرب کی نماز میں تینوں رکعات رہ جائیں تو مکمل نماز حسبِ معمول ادا کرنی ہوگی۔ 

الفتاوى الهندية میں ہے:

’’(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء. كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيداً أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية‘‘. (١/ ٩٠)

الدر المختارمیں ہے:

"و يقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، و لايقعد قبلها."

و في الرد:

"و في الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة و سورة، ثم يتشهد، ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. و قالا: ركعة بفاتحة و سورة و تشهد، ثم ركعتين أولاهما بفاتحة و سورة، و ثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ. و ظاهر كلامهم اعتماد قول محمد."

(1/ 596، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں