بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڈو اور تاش كهيلنے کا حکم


سوال

تاش پتی اور لڈو وغیرہ کے بارے میں اگر تفریح کیلئے کھیلا جائے؟اگر ٹھیک نہیں تو دلیل کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے: شطرنج وغیرہ ۔

کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے اگر لڈویا  تاش شرط لگاکر کھیلاجائیں، تو وہ  جوا ہے، اور اس کا حرام ہونا واضح ہے، اور بلاشرط کھیلنے میں اگر ایسا انہماک ہوکہ فرائض میں کوتاہی وغفلت ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے صرف وقت گزاری کے لیے بلاشرط  کھیلنے میں بھی  کوئی غرضِ صحیح نہیں ہے، بلکہ لہو اور عبث کا م ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے۔

         ارشادِ باری تعالی ہے:

"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ."[لقمان: 6]

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

 (تفسیر آلوسیؒ،سورۃ لقمان ,ج:11،ص:66، ط: دار الکتب العلمیه)

سننِ ابی داؤد میں ہے :

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها". 

(كتاب الجهاد،ج :1،ص:363،ط:رحمانيه)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

"تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحہ ،پندرھواں باب ،لہو و لعب کے احکام ،ج:9،ص:204،دارالاشاعت)

فتاویٰ مفتی محمودمیں ہے:

"تاش کھیلنایالوڈوکھیلنابہت براہے،اوراگراس پرہارجیت کی شرط ہوتوجواہے اوربالکل حرام ہے،گناہ کبیرہ سے بچناہرمسلمان پرفرض ہے،کامیاب مومن کی شان اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں یوں بیان کی ہے:’’کامیاب مومنین و ہ ہیں جولہوولعب سے اعراض کرتے ہیں‘‘۔حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:"خودتولہوولعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اورشخص مصروف ہوتواس سے بھی اعراض کرتے ہیں."

(کتاب الحظرالاباحہ،11/295،جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144409100729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں