بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لواطت سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی


سوال

 اگر کوئی لڑکا کسی لڑکے کے ساتھ زنا کرے تو کیا اس کی ماں، بہن اور بیٹی زنا کرنے والے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی یعنی کہ وہ ان سے نکاح نہیں کر سکتا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ فعلِ شنیع سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، تاہم یہ بات واضح رہے کہ بدفعلی خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں سےسنگین ترین گناہ لواطت (یعنی بدفعلی ہے خواہ وہ بیوی کے ساتھ ہو یا کسی اور سے ہو) ہے، جو انسان کو ہلاک اور برباد کرنے والا ہے، اس کی سخت ترین سزائیں دنیا اور آخرت میں بیان کی گئی ہے، خصوصًا جب کسی مردکے ساتھ یہ فعلِ بد کیا جائے تو اس میں دوہرا گناہ ہے؛ لہذا ایسے عمل سے قطعی اجتناب واجب ہے جو دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بنے، اور اگر اس طرح کے گناہ سرزد ہونے کے بعد اس گناہ پر پشیمان ہوتے ہوئے اس سے سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی ہو، تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کو معاف کر دیں گے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق مع منحة الخالقمیں ہے:

"وليفيد أنه لا بد أن تكون المرأة حية؛ لأنه لو وطئ الميتة فإنه لا تثبت حرمة المصاهرة كما في الخانية وليفيد أنه لا بد أن يكون في القبل؛ لأنه لو وطئ المرأة في الدبر فإنه لا يثبت حرمة المصاهرة وهو الأصح؛ لأنه ليس بمحل الحرث فلا يفضي إلى الولد كما في الذخيرة وسواء كان بصبي أو امرأة كما في غاية البيان وعليه الفتوى كما في الواقعات ولأنه لو وطئها فأفضاها لا تحرم عليه أمها لعدم تيقن كونه في الفرج إلا إذا حبلت.

(قوله؛ لأنه لو وطئ المرأة في الدبر) قال الكاكي - رحمه الله تعالى - أما لو لاط بغلام لا يوجب ذلك حرمة عند عامة العلماء إلا عند أحمد والأوزاعي فإن تحريم المصاهرة عندهما يتعلق باللواطة حتى تحرم عليه أم الغلام وبنته اهـ. وفي الغاية والجماع في الدبر لا يوجب حرمة المصاهرة وبه أخذ بعض مشايخنا، وقيل: يوجبها، وبه كان يفتي شمس الأئمة الأوزجندي؛ لأنه مس وزيادة، قال صاحب الذخيرة وما ذكره محمد أولا أصح لعدم إفضائه إلى الجزئية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:106، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: حرمتها أشدّ من الزنا؛ لحرمتها عقلًا وشرعًا وطبعًا".

(مطلب لاتكون اللواطة فى الجنة، ج4، ص:28، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں