بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکیوں کا کلب کرکٹ کھیلنا


سوال

کیا لڑکیوں کا کرکٹ ٹیم میں کھیلنا جائز ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر کلب کرکٹ یا قومی کرکٹ ٹیم میں کھیلنا؟

جواب

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے،  فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         ان اصولوں   کی رو  سے خواتین کا گھروں سے باہر جا کر کلبوں میں یا میدانوں کرکٹ کھیلنا  ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ کئی مفاسد اور غیر شرعی امور کا مجموعہ ہے،مثلاً: خواتین کا  شرعی ضرورت کے بغیر  گھر سے باہر نکلنا، بے پردگی، بےحیائی وغیرہ ، اور اگر وہ کھیل میڈیا یا ٹی وی وغیرہ پر نشر بھی ہوتا ہے تو اس میں مزید مفاسد بڑھ جائیں  گے، جیسے:جان دار کی تصویر بنانا، بنوانا، اسے دکھانا اور دیکھنا، نیز مردوں کی طرح خواتین کوبھی کھیل کے میدان میں   لاکر مردانہ وضع کے بہت سے کام کروانا اور ان کا یہ کام انجام دینا، پھر میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ان کی  تشہیر،اور نشر واشاعت کرکے نسوانیت  کی اہانت   وغیرہ وغیرہ،  بہرحال کھیل کا ایسا مشغلہ  مردوں کے لیے بھی جائر نہیں ، چہ جائے کہ عورتوں کے لیے  اس کی اجازت دی جائے۔

    تکملۃ فتح الملہم میں ہے: 

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، و ليس له غرض صحيح مفيد في المعاش و لا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں