لڑکی کے گھر والوں اور اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.
(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)
نیز چھپ کر نکاح مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے کے بعد حمل ضائع کروانا ( جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا وغیرہ، اس لیے بڑوں کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھانا چاہیے اور نکاح علی الاعلان کرنا چاہیے۔
لہذا والدین کی رضامندی کے بغیر چھپ کر نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلامی معاشرتی احکام اور آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں، یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں، بہر حال ان معاملات میں بزرگوں کی سرپرستی ہونی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200799
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن