بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کانام تبدیل کرکے نئے نام سے نکاح کروانا


سوال

اگر لڑکی کو اپنا ماضی یاد نہ ہو اور اس کے گھر والے بھی پاس نہ ہوں اور نہ  ہی لڑکی کے متعلق کچھ معلوم ہو تو جن کےزیرِتربیت وہ رہ رہی ہے کیا وہ اس کا نکاح نئے نام سے کروا سکتے ہیں؟

جواب

اگرنکاح کے گواہ لڑکی کے نئے نام سے واقف ہوں اور اس نام سے لڑکی کو پہچانتے ہوں تو نئے نام سے لڑکی کانکاح کرواناجائزہے،یا لڑکی مجلسِ نکاح میں موجود ہو اور اس کی  طر ف اشارہ کرکے اس کی تعیین کردی جائے ،تب بھی نکاح درست ہوجائے گا۔

درمختار اور فتاوی شامی میں ہے:

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)

 (قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوبا إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها (قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها."

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 26)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں