بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکا، لڑکی کا قاضی اور ایک منہ بولے ولی کی موجودگی میں نکاح کرنا


سوال

ایک قاضی،  ایک منہ بولا ولی اور لڑکے (جس سے نکاح ہے) کی موجودگی میں لڑکی کا نکاح ہوگیا، لڑکی کے اور لڑکے کے ساتھ کوئی گواہ نہیں تھا، کوئی کاغذی کار روائی بھی نہیں ہوئی تو کیا یہ نکاح ہوا ہے یا نہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ  ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.

(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

لہذا  صورتِ مسئولہ میں  والدین اور معاشرے سے چھپ کر نکاح کرنا شرعًا، عرفًا اور اخلاقًا پسندیدہ عمل نہیں تھا، تاہم اگر نکاح کی مجلس میں  لڑکا اور  لڑکی دونوں خود موجود تھے  اور ان دونوں کے علاوہ دو اور شخص مسلمان عاقل بالغ ( یعنی قاضی اور منہ بولا ولی) موجود تھے اور نکاح کا باقاعدہ ایجاب وقبول ہوگیا تو  شرعًا  نکاح  منعقد ہوگیا  ہے۔

البتہ اگر لڑکا لڑکی کا کفو نہ ہو تو لڑکی کے والد کو اس نکاح کا علم ہونے کے بعد بچہ پیدا ہوجانے سے پہلے پہلے عدالت سے رجوع کرکے  نکاح ختم کرنے کا حق ہے۔

کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت،  نسب، مال و  پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو، اس سے کم نہ ہو، نیز  کفاءت میں مرد  کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی  کے  ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

جامع الصغیر میں ہے:

"لأنه لايمكن جعله مزوجاً ومباشراً من وجه حكماً؛ لأنه لايتصور حقيقةً، فكان القول مضافاً إلى المزوج فلايصلح شاهداً، وعلى هذا قالوا: الأب إذا زوج بنته البكر البالغة بأمرها لحضرتها بشهادة رجل واحد جاز، وإن كانت غائبةً لايجوز".

 (1/172، عالم الكتب سنة النشر 1406 مكان النشر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)".

( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح ، باب الولي ۳/۵۵ و ۵٦ ط: سعيد)

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً)".

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں