بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

لاعلمی میں اپنی رضاعی خالہ سے کیے گئے نکاح کا حکم


سوال

زید کی دو بیویاں ہیں: مریم اور زینب، زید کا نواسہ خالد ( جس کی نانی مریم ہے ) اس کی شادی اور رخصتی زید کی پوتی ہندہ ( جس کی دادی زینب ہے،  نیز زینب ہندہ کی رضاعی ماں بھی ہے، یعنی زینب نے ہندہ کو دودھ بھی پلایا ہے ) سے کردی گئی ہے۔

نقشہ درج ذیل ہے:

زید

مریم ( بیوی )زینب ( بیوی)
کلثوم (بیٹی )عمر (بیٹا )
خالد (نواسہ )ہندہ ( پوتی، اور رضاعی بیٹی )

اب یہ نکاح شرعاً درست ہے یا نہیں؟

جواب

مذکورہ صورت میں جب زید کی بیوی زینب نے ہندہ کو دودھ پلایا ہے تو ہندہ زید کی رضاعی بیٹی اور زید اس کا رضاعی والد ہے، اور ( خالد کی ماں کلثوم اور ہندہ آپس میں بہنیں ثابت ہونے کی بناء پر ) خالد ہندہ کا رضاعی بھانجا اور ہندہ خالد کی رضاعی خالہ ہے، اور رضاعی خالہ سے شرعاً نکاح درست نہیں، لہذا دونوں میں فوری جدائی   لازم ہے، اورمرد  پر لازم ہے کہ وہ زبان سے بھی کہہ دے کہ اس نے بیوی کوچھوڑدیاہے ، اوراب تک ساتھ رہنے پردونوں توبہ واستغفاربھی کریں۔ نیز اگر اس نکاح کے نتیجے میں ازدواجی تعلق بھی قائم ہوا ہے تو عورت پر عدت گزارنا بھی لازم ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"يحرم على ‌الرضيع ‌أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده....فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته."

(كتاب الرضاع، ج:1، ص:343، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) رواه الشيخان.

(قوله ما يحرم من النسب) معناه أن الحرمة بسبب الرضاع معتبرة بحرمة النسب."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج:3، ص:213، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعدة المنكوحة نكاحا فاسدا) فلا عدة في باطل.

(قوله: نكاحا فاسدا) هي المنكوحة بغير شهود، ونكاح امرأة الغير بلا علم بأنها متزوجة، ونكاح المحارم مع العلم بعدم الحل فاسد عنده خلافا لهما فتح.

(قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة."

(کتاب الطلاق، مطلب في النكاح الفاسد والباطل، ج:3، ص:516، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"وقد صرّحوا في النکاح الفاسد بأن المتارکة لاتتحقق إلا بالقول: إن کانت مدخولًا بها كتركتك، أو خلیت سبیلك."

 (کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات، ج:3، ص:37، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لو كان النكاح فاسدا ففرق القاضي إن فرق قبل الدخول لا تجب العدة وكذا لو فرق بعد الخلوة، وإن فرق بعد الدخول كان عليها الاعتداد من وقت التفريق، وكذا لو كانت الفرقة بغير قضاء كذا في الظهيرية."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:526، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144612100152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں