جس بندے کو استخارے کی مسنون دعا یاد نہ ہو تو کیا وہ اردو میں پڑھ سکتا ہے؟
واضح رہے کہ اگر کسی کو استخارے کی دعا یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کتاب سے دیکھ کر پڑھ لے اور اگر کتاب ساتھ نہ ہو تو پھر اردو اپنی زبان ہی میں پڑھ لے۔
استخارہ کی مسنون دعا یہ ہے:
"اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لاَأَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَأَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِيْ الْخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ثُمَّ اَرْضِنِيْ بِه."
دعاکرتے وقت جب”هذا الأمر“پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الأمر“کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر“یا ”هذا النکاح“ یا ”هذه التجارة“ یا ”هذا البیع“کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر“ کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔
استخارے کے بعد جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یک سوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية."
(كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل، ج: 2، ص: 26، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404102071
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن