بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹے کا ماں کے حکم اور مطالبہ پر بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟


سوال

اگر ماں اپنے بیٹے کو کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو، تو وہ (بیٹا) کس حد تک پابند ہے؟ اس پر ماں کا یہ کہا ماننا واجب، فرض یا لازم ہے؟ ایسی کوئی حدیث موجود ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  والدہ  کسی  شرعی  وجہ  کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور  بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر  بیوی ان کے  ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی،ور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والدین کی بات  ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے   کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ  بات طلاق دینا ہے؛ لہٰذا  حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز  جس طرح  اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:

"والدین کے ناحق طلاق کے حکم کو ماننا جائز نہیں

سوال: والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا  چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو  اس صورتِ حال میں بیٹے کے  لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب: حدیثِ پاک کا منشا یہ  ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے  لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے  ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔

          خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔"

سوال: ساس اور بہو کے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے اگر ساس یا سُسر اپنے بیٹے کو حکم کریں کہ تُم اسے چھوڑ دو ہم تمہیں دُوسری بیوی کروادیں گے تو کیا بیٹا اس حکم کی تعمیل کرے گا؟

جواب: اگر بیوی قصور وار ہو تو والدین کے حکم کی تعمیل کرے، اور اگر بے قصور ہو تو تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔"

(تنسیخِ نکاح، ج:6، ص:682، ط:مکتبہ لدھیانوی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

 (كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج:1، ص:132، رقم االحديث:61، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

  فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144502100653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں