بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کلما کی طلاق کی قسم کھانا


سوال

ایک چوبیس سال کا لڑکا جس کا نکاح نہیں ہوا اس کے ساتھ ایک معاملہ پیش آیا معاملہ چوری کا تھا اور اس کے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے۔ وہ چوبیس سالہ لڑکا چوری کرتا ہے۔ اور الزام دوسرے دو لوگوں پر ڈال دیتا ہے۔ تفتیش کے دوران اس کو قسم دلائی جاتی ہے کہ اگر اس نے چوری نہیں کی ہے تو قسم کھائے کہ میں جب بھی جس کسی سے بھی نکاح کروں گا اس کو تین طلاق اور ہونے والی اولاد حرام رہے گی، اور مار کے خوف سے اور جان جانے کے ڈر سے وہ لڑکا قسم بھی کھالیتا ہے، برائے مہربانی اس کا کوئی حل بتائیں کیا وہ لڑکا ساری عمر زنا کرتا رہے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جو یہ قسم اٹھائی ہے کہ  ’’میں جب بھی جس کسی سے بھی نکاح کروں گا اس کو تین طلاق اور ہونے والی اولاد حرام رہے گی‘‘ تو شرعاً یہ الفاظ کلما کی طلاق کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے بعد جب کبھی بھی یہ شخص جس عورت سے بھی نکاح کرے گا تو اس عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا آدمی فضولی بن کر (یعنی اس کا وکیل نہ ہو، بلکہ) اپنے طور پر اس شخص کے لیے ایجاب و قبول کرکے اس شخص کو اطلاع دے کہ میں نے تمہارا نکاح فلاں لڑکی  کے ساتھ کردیا ہے اور یہ شخص (قسم کھانے والا) زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ عملاً مہر ادا کردے، یا اس کے ساتھ شب گزاری کرلے، تو اس طرح عملاً اجازت کی وجہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا، اور خود نکاح نہ کرنے کی وجہ سے طلاق بھی واقع نہ ہوگی، بصورتِ دیگر اگر یہ شخص خود یا اس کے اجازت سے کوئی دوسرا شخص اس کا نکاح کرادے تو نکاح کرتے ہی اس منکوحہ پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(حلف لايتزوج فزوجه فضولي فأجاز بالقول حنث، وبالفعل) ومنه الكتابة خلافاً لابن سماعة (لا) يحنث، به يفتى، خانية".

وفي الرد:

"(قوله: وبالفعل) كبعث المهر أو بعضه بشرط أن يصل إليها، وقيل: الوصول ليس بشرط، نهر. وكتقبيلها بشهوة وجماعها، لكن يكره تحريماً لقرب نفوذ العقد من المحرم، بحر. قلت: فلو بعث المهر أولاً لم يكره التقبيل والجماع؛ لحصول الإجازة قبله".

(شامی، کتاب الأیمان، باب الیمین فی الضرب الخ، ج:3، ص: 846، ط: سعید)

مجمع الانہر میں ہے:

"فلو قال (تفريع لما قبله): كلما تزوجت امرأةً فهي طالق، تطلق بكل تزوج، ولو وصلية بعد زوج آخر؛ لأن صحة هذا اليمين باعتبار ما سيحدث من الملك وهو غير متناه.

وعن أبي يوسف أنه لو دخل على المنكر فهو بمنزلة كل، وتمامه في المطولات، والحيلة فيه عقد الفضولي أو فسخ القاضي الشافعي، وكيفية عقد الفضولي أن يزوجله فضولي فأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوه لا بالقول؛ فلاتطلق، بخلاف ما إذا وكل به لانتقال العبارة إليه".

 (کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:2، ص: 60، ط: دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں