بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کی نیت سے لیے گئے مکان پر زکاۃ


سوال

 میں نے ایک مکان کرایہ کی نیت سے خریدا ،لیکن اس  کی  80 فیصد رقم ادا کی ہے ،باقی 20 فیصد رقم باقی  ہے ، مکان کا قبضہ پوری رقم ادا کر نے کے بعد مجھے ملےگا ،سوال یہ ہے  کہ میں نے  اس رقم پر جو ادا کیا ہے ، یعنی 80 فیصد پر زکوٰۃ دوں گا  یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل  نے جو مکان کرایہ پر دینے کی نیت سے خریدا ہے، اس مکان پر زکوٰۃ  لازم نہیں ہوگی، اسی طرح اس  مکان کی 80 فیصد جو رقم ادا کی ہے اس پر بھی  زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، اور بقیہ 20 فیصد رقم کی ادائیگی اگر قسطوں میں طے ہے اور صاحبِ نصاب ہیں تو زکات کا یہ سال مکمل ہونے تک واجب الادا اقساط کو منہا کرکے بقیہ اموالِ زکات کی زکات ادا کرنا واجب ہوگا۔ اور اگر بقیہ 20 فیصد رقم کی ادائیگی کے لیے مدت مقرر نہیں کی گئی تو مجموعی رقم اموالِ زکات سے منہا کرکے زکات کی ادائیگی واجب ہوگی۔

 باقی مکان کے قبضہ کے  بعد جب سائل اس مکان کو کرایہ پر دےگا تو اس  سے حاصل ہونے والے کرایہ پر،جب کہ وہ محفوظ ہو خرچ نہ ہوا ہو ، دیگر اموال زکوٰ ۃ کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ لازم ہوگی اور اگر اس مکان کے  کرایہ کے علاوہ اور کوئی مال زکوٰۃ نہ ہوتو جب کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم  زکوٰۃ کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تو لہ چاندی کی قیمت ) کے بقدر ہوجائے  اور وہ محفوظ ہویعنی خرچ نہ ہوئی ہو تو  اس رقم  پر قمری حساب سے سال  گزرنے پر زکوٰۃ لازم ہوگی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى قدورًا من صفر يمسكها ويؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة".

(1 / 180 ط:دار الفكر)

وفي الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي :

"المطلب الأول ـ زكاة العمارات والمصانع ونحوها:

اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."

(3/ 1947ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں