بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کس شخص پر زکوۃ لگتی ہے؟


سوال

ایک شخص کے پاس اپنا ایک چھوٹا سا گھر ہے،لیکن اس کے پاس قرض اتنا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہے،اور اس کے مالی حالات بھی بہت خراب ہیں،کیا اس شخص پر زکوۃ لگتی ہےیعنی اس شخص کو زکوۃ دی جاسکتی ہے؟

جواب

      اگر کوئی شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی، عباسی، علوی، جعفری ہے تو اس شخص کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکوۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی،  اگر کسی کے پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو تو اگر دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے اس کو زکوۃ دینا جائز ہوگا۔

صورتِ مسئولہ مذکورہ شخص کا مکان ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہے،اور اگر واقعۃً مذکورہ شخص غریب اور ضرورت مند ہے ،اور اس کے پاس  ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے،اور وہ مقروض بھی ہے تو اس شخص کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

نوٹ: یہ صرف مسئلے کا جواب ہے، کسی مخصوص فرد کے لیے زکات وصول کرنے کی تصدیق نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي، ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب، لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج، هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''۔

(كتاب الزكوة، باب المصرف، ج: 1، ص: 189، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں