بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کی عُشری زمین میں عُشر کس کے ذمہ ہے؟


سوال

جس زمین کاکرایہ دیاجاتاہے اس کاعشرکرایہ کے علاوہ نکالا جاۓ  گا یا کرایہ  دینا کافی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ عشری زمین کو کرایہ پر لینے کی صورت میں بھی اس کا عُشر ادا کرنا  لازم  ہے،  صرف کرایہ دینا کافی نہیں ہے،  البتہ  زمین کرایہ  پر دینے کی صورت میں اس کا عشر  زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو  بچت  کم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کے مالک کے ذمہ عشر ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

موجودہ  زمانے میں کرایہ عموماً   کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر  (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی  ہے ، اس لیے موجودہ   زمانے میں از روئے فتویٰ عشر  کرایہ دار پر ہوگا۔

"والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم. وفي الحاوي: وبقولهما نأخذ".

(قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه، وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر، كما في الأشباه، ... فإن أمكن أخذ الأجرة كاملةً يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما؛ لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد".

(فتاوی شامی،2/ 334، کتاب الزکاة، باب العشر، فروع في زکاة العشر، ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200910

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں