بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تہجد کے لیے سونا ضروری ہے؟


سوال

کیا تہجد کی نماز کے لیے نیند لینا یعنی سونا ضروری ہے۔؟

جواب

تہجد کی نماز کیلئے سوکر اٹھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ سوئے بغیر بھی پڑھ سکتے ہیں، البتہ سوکر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنا افضل ہے، عام طور پر سوکر اٹھنے کے بعد نفل پڑھنے کو "تہجد" کہا جاتا ہے، کیونکہ جس قدر بھی رات کا حصہ متاخر ہوتا جاتا ہے، برکات اور رحمتیں زیادہ ہوتی چلی جاتی ہیں، اور رات کے آخری پہر میں سب حصوں سے زیادہ برکات پائی جاتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول عام طور سے یہی رہا کہ آخر رات میں بیدار ہوکر نماز پڑھتے تھے، اس لئے افضل یہی ہے کہ تہجد کی نماز سوکر اٹھ کر رات کے آخری پہر میں پڑھی جائے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:

"لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی  ... اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازِتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت﴿ وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ ﴾کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا."

(معارف القرآن، سورۃالاسراء، تحت الآیۃ:79، تہجد کا وقت،515/5)

 تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"فإن التهجد: ما كان بعد نوم. قاله علقمة، والأسود وإبراهيم النخعي، وغير واحد وهو المعروف في لغة العرب. وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه، عن ابن عباس، وعائشة، وغير واحد من الصحابة، رضي الله عنهم، كما هو مبسوط في موضعه ، ولله الحمد والمنة. وقال الحسن البصري: هو ما كان بعد العشاء. ويحمل على ما بعد النوم."

(تفسير ابن كثير، سورة الاسراء،الآية:79، 94/5، دارالكتب العلمية)

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کاتعامل یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔

نيز  یہ حکم اس وقت ہے، جب بندے کو سونے سے پہلے یا بعد میں تہجد پڑھنے میں تردد ہو، لیکن اگر کسی کو کسی وجہ سے نیند ہی نہیں آئی اور وہ رات کے آخری حصہ تک جاگتا رہا تو اس کے حق میں تہجد کیلئے پہلے سونے کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں