بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سزا کے طور پر طلبہ سے جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے ؟


سوال

 کیا سزا کے طور پر طلبہ سے جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ سزا کے طور پر طلباء سےلیا جانے والا جرمانہ  (جسے ’’تعزیربالمال‘‘ اور ’’غرامہ مالیہ‘‘ بھی کہاجاتاہے)، شرعاً  جائز نہیں ہے، اگر اب تک کوئی  رقم لی گئی  ہو تو  وہ بھی واپس کرنا ضروری ہے،لہٰذا  بچوں سے جرمانہ لینے کے بجائے ان کی تنبیہ کے لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے  کوئی اور مناسب سزا مقرر کی جائے۔

رد المحتار میں ہے:

"(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز ‌التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى ‌التعزير بأخذ المال على القول به: إمساك شيء من ماله عنه ‌مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: ‌التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـوالحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال."

(كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج:4،ص:61، ط:ايچ ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں