بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بچہ جو گناہ کرے گا، اس کا گناہ والدین کو ہوگاَ؟


سوال

اگر 4 سال کا بچہ گالیاں دے، تو کیا اس کا گناہ والدین کو ملتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا اور ان  کو اچھائی کی ترغیب دینا اور برائی سے روکنا یہ والدین کی ذمہ داری ہے، اگر والدین اس میں کمی کوتاہی کریں گے اور بچے کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں کریں گے، تو اس کا گناہ والدین کو ہوگا اور کل قیامت کے دن اس متعلق باز پرس بھی ہوگی، لهٰذا اگر والدین اپنی اس  ذمہ داری میں کمی کوتاہی کریں، جس کی وجہ سے بچہ کسی بُری عادت جیسے  گالی دینا وغیرہ میں پڑجائے، تو   والدین کو تعلیم و تربیت میں کمی کوتاہی  کا گناہ ہوگا، لیکن اگر والدین بچے کی صحیح تعلیم و تربیت کریں، پھر بھی اگر بچہ کوئی گناہ کرتا ہے، یا گالی دیتا ہے، تو اس کا گناہ والدین کو نہیں ہوگا اور نہ ہی بچہ کو ہوگا۔

البتہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کریں اور ان کو اچھے اخلاق کا عادی بنائیں اور ان کے سامنے خود بھی اچھے الفاظ استعمال کریں اور  برے الفاظ اور بد اخلاقی سے اجتناب کریں، تاکہ بچوں کے اندر اچھی صفات پیدا ہوں۔

سنن أبي داود ميں  ہے:

"حدثنا هناد، عن أبي الأحوص، ح وحدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، المعنى، عن عطاء بن السائب، عن أبي ظبيان، قال هناد الجنبي: قال: أتي عمر بامرأة قد فجرت، فأمر برجمها، فمر علي رضي الله عنه، فأخذها فخلى سبيلها، فأخبر عمر، قال: ادعوا لي عليا، فجاء علي رضي الله عنه، فقال: يا أمير المؤمنين، لقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «رفع القلم عن ثلاثة، عن الصبي حتى يبلغ، وعن النائم حتى يستيقظ، وعن المعتوه حتى يبرأ»، وإن هذه معتوهة بني فلان، لعل الذي أتاها وهي في بلائها، قال: فقال عمر: لا أدري، فقال علي عليه السلام، وأنا لا أدري."

(كتاب الحدود، ج:4، ص:140،  ط:المكتبة العصرية)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «ألا ‌كلكم ‌راع وكلكم مسئول عن رعيته ; فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته، والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده وهي مسئولة عنهم، وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسئول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته» . متفق عليه." (مشكاة)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"فالرعاية حفظ الشيء وحسن التعهد، فقد استوى هؤلاء في الاسم ولكن معانيهم مختلفة، أما رعاية الإمام ولاية أمور الرعية: فالحياطة من ورائهم، وإقامة الحدود والأحكام فيهم. ورعاية الرجل أهله: فالقيام عليهم بالحق في النفقة، وحسن العشرة."

(كتاب الامارة والقضاء، ج:6، ص:2402، ط:دار الفكر، بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں