خلع لینے پر حق مہر شوہر کو ادا کرناپڑےگا کیا؟
واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر میاں بیوی کی رضامندی سے خلع ہوا تو اس میں جو عوض طے ہو وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا ذمے میں لازم ہوگا، اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو اور شوہر نے اب تک مہر ادا نہ کیا ہو تو شوہر پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوگا اور اگر شوہر نے مہر ادا کر دیا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، ورنہ جس چیز کے عوض خلع کیا گیا ہو اس کی ادائیگی بیوی کے ذمے لازم ہو گی۔
اسی طرح شوہر اگر خلع قبول کرلے، اور اس کے باوجود مہر ادا کردے یا دیا ہوا مہر واپس نہ لے تو یہ اس کا اختیار ہے، بغیر عوض لیے بھی خلع ہوجائے گا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."
(کتاب الطلاق , الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمه جلد 1 ص: 488 ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100896
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن