بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زخم سے مسلسل خون کا بہنا اور کپڑوں پر لگنا


سوال

ایک شخص کے زخم سے مسلسل خون بہتا ہے ، کافی کوشش کے باوجود بھی اس کا خون کپڑوں پر لگ جاتا ہے ،تو ایسی صورت میں اس کی نماز اور کپڑوں کی پاکی کا کیا حکم ہے ؟

جواب

اگر کسی شخص کے زخم سے مسلسل خون نکل رہا ہوتواس شخص کے لیے وضو اور کپڑوں کی پاکی کے لحاظ سے حکم یہ ہے کہ :

اگر خون کا تسلسل ایسا ہو کہ یہ شخص مکمل پاکی کی حالت میں وضوکرکے ایک فرض نماز بھی ادا نہیں کرسکتا یعنی اتنی مہلت بھی نہیں ملتی تو اس صورت میں یہ شخص شرعاً معذور کہلائے گا اوراس کے بعد جب تک ہر نماز کے وقت میں کسی نہ کسی درجہ میں یہ عذر یعنی خون کا نکلنا پایا جائے یہ شخص معذور کے حکم میں ہی رہے گا۔

اور شرعی معذور   کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض اور نوافل ادا کرلے (اس ایک وقت کے درمیان میں زخم سے جتنا بھی خون بہے وہ پاک ہی رہے گا بشرطیکہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔یہ حکم وضو کے اعتبار سے تھا۔

اور اگر خون کے قطرےجسم یا  کپڑوں پر گرتے  ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں، اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ اگر فرض نماز شروع کرنے سے پہلے جسم یا  کپڑے کو دھویا لیا جائے تب بھی  دورانِ نماز دوبارہ زخم سے خون نکل کر  جسم یا کپڑوں پر لگ جائے گا تو اس صورت میں ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا،اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز ہی کیوں نہ کرجائیں اور اگر  یہ گمان ہے کہ ان قطروں کو دھونے کے بعد یہ دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں جسم یا کپڑوں پر خون لگے ہونے کی صورت میں ان کا دھونا واجب ہوگا اور بغیر دھوئے ہوئے نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی۔

اس صورت میں اگر اس زخم پر پٹی باندھنے کی صورت ممکن ہو تو پٹی باندھ دی جائے اور زخم اگراعضائے وضو پر ہو تو وضو کرتے وقت اس پٹی پر مسح کرلیاجائے۔تاکہ خون پٹی کے اندر ہی جذب ہوتا رہے، کپڑے محفوظ ہوں ۔اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہو بلکہ خون کپڑوں پر لگ جاتا ہو تو وہی حکم ہے جو اوپر لکھا جاچکاہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لايمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه  ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر. (وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لايغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى،  وكذا مريض لايبسط ثوبه إلا تنجس فوراً له تركه  (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

الفتاوى الهندية (1/ 40):

"(ومما يتصل بذلك أحكام المعذور) شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملًا وهو الأظهر كالانقطاع لايثبت ما لم يستوعب الوقت كله ... وشرط بقائه أن لايمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه، هكذا في التبيين . المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لايرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل، هكذا في البحر الرائق ... إذا كان به جرح سائل وقد شد عليه خرقة فأصابها الدم أكثر من قدر الدم أو أصاب ثوبه إن كان بحال لو غسله يتنجس ثانياً قبل الفراغ من الصلاة جاز أن لايغسله وصلى قبل أن يغسله وإلا فلا، هذا هو المختار هكذا في المضمرات."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں