بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خون ناپاک ہے تو اس کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنے کا کیا حکم ہے؟


سوال

اگر ہم کسی آدمی کو خون دیتے ہیں، ہم جانتے ہیں جب خون آدمی کے جسم سے نکلتا ہے وہ نجس ہوتا ہے، دوسرے آدمی کے جسم میں داخل ہوتے وقت اس خون کا کیا حکم ہوگا، نجس یا پاک؟

جواب

 بہنے والا خون جب انسان کے اپنے جسم میں موجود ہو تب بھی وہ نجس ہی ہوتاہے، البتہ وہ اپنی جگہ میں ہوتاہے، خارج نہیں ہوتا اس لیے وضو ٹوٹنے کا حکم بھی نہیں لگایا جاتا، اور جب بہنے والا خون جسم سے باہر نکلتا ہے تو نجاست خارج ہونے کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم بتایا جاتاہے، لہٰذا خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہے، دوسرے آدمي كے جسم میں  منتقل كرتے وقت بھی وہ نجس ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ  اس کی بھی کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر  فقہاء نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے  اس کے استعمال کی اجازت دی ہے،  البتہ اس کی نجاست  کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:

(۱) جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔

(۲) جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو، تب بھی خون دینا جائز ہے۔

(۳) جب خون نہ دینے کی صورت میں  ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا  اندیشہ  ہو، اس   صورت میں بھی   خون دینے کی گنجائش ہے، مگر  اجتناب بہتر ہے۔

ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔

(4) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا    مقصود ہو،  ایسی  صورت میں خون دینا  جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَلَمْ يُبَحْ الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مَوْتِهِ)؛ لِأَنَّهُ جَزْءُ آدَمِيٍّ، وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ، شَرْحُ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَفِي الْبَحْرِ: لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ الْمَأْكُولِ، كَمَا مَرَّ. (قَوْلُهُ: وَفِي الْبَحْرِ) عِبَارَتُهُ: وَعَلَى هَذَا أَيْ الْفَرْعِ الْمَذْكُورِ لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ لِلتَّدَاوِي. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَأَهْلُ الطِّبِّ يُثْبِتُونَ لِلَبَنِ الْبِنْتِ أَيْ الَّذِي نَزَلَ بِسَبَبِ بِنْتٍ مُرْضِعَةٍ نَفْعًا لِوَجَعِ الْعَيْنِ. وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِيهِ، قِيلَ: لَا يَجُوزُ، وَقِيلَ: يَجُوزُ إذَا عَلِمَ أَنَّهُ يَزُولُ بِهِ الرَّمَدُ، وَلَا يَخْفَى أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِلْمِ مُتَعَذِّرَةٌ، فَالْمُرَادُ إذَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ وَإِلَّا فَهُوَ مَعْنَى الْمَنْعِ اهـ. وَلَا يَخْفَى أَنَّ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ لَا يَجُوزُ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ فَإِنَّهُ لَا يُشْرَبُ أَصْلًا. اهـ. (قَوْلُهُ: بِالْمُحَرَّمِ) أَيْ الْمُحَرَّمُ اسْتِعْمَالُهُ طَاهِرًا كَانَ أَوْ نَجَسًا ح (قَوْلُهُ: كَمَا مَرَّ) أَيْ قُبَيْلَ فَصْلِ الْبِئْرِ حَيْثُ قَالَ: فَرْعٌ اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ. وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ كَمَا فِي إرْضَاعٍ الْبَحْرِ، لَكِنْ نَقَلَ الْمُصَنِّفُ ثَمَّةَ وَهُنَا عَنْ الْحَاوِي: وَقِيلَ يُرَخَّصُ إذَا عَلِمَ فِيهِ الشِّفَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ كَمَا خُصَّ الْخَمْرُ لِلْعَطْشَانِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. اهـ".  (3 / 211، باب الرضاع، ط:سعید)"

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں