بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خیرات اور عرس کا حکم


سوال

کیا خیرات یا عرس جائز ہے؟

جواب

خیرات کا معنی ہے: نیکی اور بھلائی کے کام کرنا۔ ہمارے عرف اس کا عام اطلاق صدقہ نافلہ پر ہوتا ہے یعنی جو مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کسی خیر کے کام میں خرچ کیا جائے وہ صدقہ و خیرات کہلاتا ہے، یہ ہر وقت اورہر زمانہ میں جائز  اور باعث ثواب ہے، لیکن اس کو  کسی ایسے دن  میں  کرنے کا التزام کرلینا جو شریعت سے ثابت نہ ہو اور اس تعیین کو ثواب سمجھنا یا اس میں دیگر منکرات شامل ہوں تو پھر  یہ بدعت بن جاتا ہے۔

باقی مروجہ عرس بدعت ہے اور بدعت کا حصہ بننا شرعاً جائز نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر میلہ دھیلہ کرنے اور قبر پرستی سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ اپنی قبر مبارک پر بھی میلہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے؛ لہذا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر عرس یا میلہ کرنا ممنوع ہے تو کسی امتی (خواہ وہ ولی اللہ ہو) کی قبر پر عرس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے! لہذا مروجہ اور عرس اور خاص اس موقع پر خیرات کا اہتمام بدعت اور ناجائز ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 744):

926 - وعنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " «لاتجعلوا بيوتكم قبورًا، ولاتجعلوا قبري عيدًا، وصلوا عليّ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث كنتم» "، رواه النسائي.

ـــــــــــــــــــــــــــــ926 - (وعنه) ، أي: عن أبي هريرة (قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تجعلوا بيوتكم ") : بكسر الباء وضمها (قبورًا) ... (" «ولا تجعلوا قبري عيدًا» ") : هو واحد الأعياد، أي: لاتجعلوا زيارة قبري عيدًا، أو لاتجعلوا قبري مظهر عيد، فإنه يوم لهو وسرور، وحال الزيارة خلاف ذلك، وقيل: محتمل أن يكون المراد الحث على كثرة زيارته، ولا يجعل كالعيد الذي لا يأتي في العام إلا مرتين.

قال الطيبي: نهاهم عن الاجتماع لها اجتماعهم للعيد نزهة وزينة، وكانت اليهود والنصارى تفعل ذلك بقبور أنبيائهم، فأورثهم الغفلة والقسوة، ومن عادة عبدة الأوثان أنهم لا يزالون يعظمون أمواتهم حتى اتخذوها أصناما، وإلى هذا أشار لقوله: " «اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد» " فيكون المقصود من النهي كراهة أن يتجاوزوا في قبره غاية التجاوز، ولهذا ورد: " «اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد» "، وقيل: العيد اسم من الاعتياد يقال: عاده واعتاده وتعوده، أي: صار عادة له، والعيد ما اعتادك من هم أو غيره، أي: لا تجعلوا قبري محل اعتياد فإنه يؤدي إلى سوء الأدب وارتفاع الحشمة.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں