بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کا شوال کے چھ روزوں میں قضا روزوں کی نیت کرنا


سوال

 کیا شوال اور قضا روزوں کی نیت خواتین ایک ساتھ کر سکتی ہیں؟

جواب

نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ  الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے،  روزہ میں  نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا  اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں  کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا شوال کے چھ  روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔اس لیے اگر اس میں شوال کے چھ روزوں  کی نیت کی ہےتو وہ نفلی روزے ہوں گے،  قضا کے نہیں ہوں گے، اور اگر ان دنوں میں قضا کی نیت کی ہے تو وہ قضا کے روزے ہوں گے اور اس سے نفلی کا ثواب نہیں ملے گا،  اور اگر دونوں کی نیت کرلی تو وہ قضا روزے شمار ہوں گے۔

 اگر عورت شوال میں قضا اور نفل روزے دونوں ادا کرسکتی ہے تو بہتر، ورنہ شوال کے روزوں کی فضیلت کی خاطر پہلے شوال کے نفل روزے رکھ سکتی ہے؛ کیوں کہ شوال کے بعد اس کا وقت نہیں رہے گا، جب کہ رمضان کی قضا بعد میں بھی کرسکتی ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضہ اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے رمضان کے قضا روزے آئندہ سال شعبان میں رکھ پاتی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے۔

تاہم بہتر یہ ہے کہ قضا روزے جلد از جلد رکھ لے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 299) :

"ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لا يصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية".

الفتاوى الهندية (1/ 196):

"ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 13):

"ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں