بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ختمِ قرآن کے موقع پر مسجدوں میں تصویر بنانے کا حکم


سوال

مسجدوں میں ختم قرآن کریم میں تصویریں بناتے ہیں،  اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

دینِ  اسلام  میں  جان  دار  کی  تصویر سازی، خواہ کسی بھی شکل میں ہو  (متحرک ہو یا ساکن)یا کسی بھی طریقے سے بنائی گئی ہو،نیز بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، اور  ضرورتِ  شدیدہ  کے علاوہ کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر سازی کی گئی ہو، سب  ناجائز ہے، مذکورہ تنوع و اختلاف سے کسی جائز کام کو  مدنظر  رکھ کر صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔

لہذا تصویر کشی کرنا چاہے موبائل کے ذریعے ہو یا کسی اور آلہ کے ذریعے ہو  (خواہ وہ دینی ہو، مسجد میں ہو یا کہیں بھی ہو) یا سیلفی وغیرہ بنانا  از رُوئے  شرع تصویر سازی  کے حکم میں ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہے، اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے ۔ بلکہ مساجد میں دینی پروگرام اور عبادات کی ویڈیو، تصاویر اور سیلفی بنانا نہ صرف عبادات کی روح  (اخلاص و توجہ الی اللہ) کے ختم یا کم ہونے کا سبب ہے، بلکہ ریا و نمود  کا سببِ عادی ہے یا آئندہ بن سکتاہے، مزید  یہ کہ مساجد مقدس مقامات ہیں، اور ناجائز کام مقدس جگہ پر کرنے سے اس کی سنگینی میں اضافہ ہی ہوتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلوة، مكروهات الصلوة، ج:1، ص:647، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209201054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں