بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خطیب کے لیے دوخطبوں کے درمیان کلام کرنے کا حکم


سوال

کیا  دو خطبوں کے درمیان امام بول سکتا ہے؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ ازرُوئے شرع  دورانِ خطبہ (خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، یا نکاح وعدین کا خطبہ ہو)    سامعین کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کے کلام سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ دو خطبوں کے درمیان ذکر بھی دل ہی دل میں کرنا  چاہیے، زبان سے نہیں کرنا  چاہیے، تاہم مذکورہ حکم سے امام وخطیب مستثنی ہے، لہذا خطیب دورانِ خطبہ  یا دوخطبوں کے درمیان امربالمعروف وغیرہ پر مشتمل کلام کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب لأن الأمر بالمعروف منها بلا فرق بين قريب وبعيد في الأصح ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي وهو محتاج إليه، والإنصات لحقه تعالى، ومبناه على المسامحة والأصح أنه لا بأس، بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر، وكذا الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:545، ط:ايج ايم سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"والتکلم به من غير الامام حرام." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:552، ط:قديمى كتب خانه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207200999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں