بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خشخاش اور افیم کی کاشت اور خرید وفروخت کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص افیم کی کھیتی کرے اوراس میں سے خش خاش نکال کر بیچے، اگر خشخاش کھانا جائز ہو، اور افیم کو نہ بیچے، نہ نکالے،تو (1)  کیا خشخاش کی کھیتی اور آمدنی حلال ہے؟ (2) کیا ا فیم کی کھیتی میں کچھ گنجائش ہے؟ (3) کیا افیم کے ڈوڈے بیچنا جائز ہے؟ اور اگر یہ سب مکروہ ہے تو تنزیہی یا تحریمی؟

جواب

واضح رہے ازروئے شرع جن اشیاء کا استعمال فی نفسہ جائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی شرعاً جائز ہوتاہے، اور جن اشیاء کا استعمال ہی شرعاً ناجائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی حرام ہے اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوتی ہے، بصورتِ مسئولہ

1:خشخاش کا استعمال فی نفسہ چوں کہ جائز ہے، لہٰذا خشخاش نکالنے کی غرض سے کھیتی کرنا اور اس سے خشخاش نکال کرفروخت کرنےسے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ آمدنی حلال ہے۔

2: افیم (افیون) کا استعمال بطور نشہ کے شرعاً چوں کہ حرام ہے، لہذا  افیم نکال کر ایسے لوگوں پر فروخت کرنا جو اس کا استعمال نشہ کے طور پر کرتےہیں، یا اس سے نشہ آور چیزیں  تیار کرتے ہیں، اس نیت سے افیم کی کھیتی کرنا اور اس کی خرید وفروخت کرنا شرعاً مکروہِ تحریمی ہے، تاہم اگر افیم ایسے لوگوں پر فروخت کی جائے جو نشہ آور مقدار سے کم افیم کو ادویہ میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے مختلف ادویہ تیار کرتے ہیں،تو اس نیت سے افیم کی کھیتی کرنے اور اس کی خرید وفروخت کرنے کی گنجائش ہوگی۔

3: افیون کے ڈوڈوں (ڈوڈا یعنی افیم کا پوست) کی خریدوفروخت جائز ہے۔

ملحوظ رہے افیم اور خشخاش سے متعلق  نفسِ حکم لکھا گیاہے، تاہم اگر حکومت کی طرف سے افیون  وغیرہ کی کاشت پر پابندی ہے، اور آج کل اس کا عام استعمال بھی  جائز کام میں نہ ہونے کے برابر ہے، لہذا اس کو کاروباری مشغلہ بنانے اور اس کی کاشت کاری سے اجتناب کیا جائے۔ نیز اس کی زراعت سے زمین دیگر فصلوں کے لیے قابلِ زراعت بھی نہیں رہتی، لہٰذا جہاں اس کی کاشت کی وجہ سے غذا کی قلت پیدا ہو تو وہاں خصوصاً کھیتی باڑی سے اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ غذا دوا سے مقدم ہے۔ (فتاویٰ حضرت الشیخ البنوری، ومفتی ولی حسن ٹونکی رحمہما اللہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل".

(كتاب الاشربة، ج:6، ص:454، ط:ايج ايم سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة".

(كتاب الاشربة، ج:6، ص:457، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار".

(فصل فى البيع، ج:6، ص:391، ط:ايج ايم سعيد)

 فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144202201364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں