بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کے بعد اسے نفع پر فروخت کرنا


سوال

ایک شخص فروٹ کی گاڑی خرید لیتا ہے سبزی منڈی میں، اور پھر صبح کو کسی دوسرے شخص کے ذریعے اپنا منافع رکھ کر فروخت کر دیتا ہے، آیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر فروٹ کی گاڑی خرید کر اس پرخود قبضہ  کرے یا کسی وکیل کے ذریعے قبضہ کرنے کے بعد  کسی دوسرے  شخص کے ذریعے اسے نفع رکھ  کر فروخت کرتا ہے تو یہ نفع اس کے لیے جائز و حلال ہے اور یہ معاملہ درست ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 505):
"وأما الثاني، وهو شرائط النفاذ فاثنان: الملك أو الولاية، وأن لا يكون في البيع حق لغير البائع فلم ينعقد بيع الفضولي عندنا، أما شراؤه فنافذ.
قلت: أي لم ينعقد إذا باعه لأجل نفسه لا لأجل مالكه لكنه على الرواية الضعيفة. والصحيح انعقاده موقوفا كما سيأتي في بابه. والولاية إما بإنابة المالك كالوكالة، والشارع كولاية الأب ثم وصيه ثم الجد ثم وصيه ثم القاضي ثم وصيه، ولا ينفذ بيع مرهون ومستأجر، وللمشتري فسخه إن لم يعلم لا لمرتهن ومستأجر.

وأما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لاينعقد لايصح، وعدم التوقيت، ومعلومية المبيع، ومعلومية الثمن بما يرفع المنازعة فلايصح بيع شاة من هذا القطيع وبيع الشيء بقيمته، أو بحكم فلان وخلوه عن شرط مفسد كما سيأتي في البيع الفاسد والرضا والفائدة، ففسد بيع المكره وشراؤه وبيع ما لا فائدة فيه وشراؤه كما مر، والخاصة معلومة الأجل في البيع المؤجل ثمنه، والقبض في بيع المشترى المنقول، وفي الدين، ففسد بيع الدين قبل قبضه كالمسلم فيه، ورأس المال وبيع شيء بدين على غير البائع وكون البدل مسمى في المبادلة القولية، فإن سكت عنه فسد وملك بالقبض، والمماثلة بين البدلين في أموال الربا، والخلو عن شبهة، ووجود شرائط المسلم فيه، والقبض في الصرف قبل الافتراق، وعلم الثمن الأول في مرابحة، وتولية وإشراك ووضيعة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں