بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھڑے ہو کر پانی پینے کا حکم


سوال

کیا کھڑے ہوکر پانی پینا خلاف سنت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں  کئی ساری احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت  وارد ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں طرف کی احادیث کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے  کہ  اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن   بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا  اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں  کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو  ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ 

لہٰذا    بیٹھ کر پانی پینا باعثِ ثواب ہے، لیکن  اگر کسی نے  بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا  تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی  اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے کے ثواب سے محروم ہوگا۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"واعلم أنه روي في الشرب قائما أحاديث كثيرة. منها: النهي عن ذلك......ومنها: إباحة الشرب قائما.......وقال النووي: إعلم أن هذه الأحاديث أشكل معناها على بعض العلماء، حتى قال فيها أقوالا باطلة، والصواب منها: أن النهي محمول على كراهة التنزيه، وأما شربه قائما فلبيان الجواز، ومن زعم نسخا فقد غلط، فكيف يكون النسخ مع إمكان الجمع، وإنما يكون نسخا لو ثبت التاريح فأنى له ذلك؟ وقال الطحاوي ما ملخصه: أنه صلى الله عليه وسلم أراد بهذا النهي الإشفاق على أمته، لأنه يخاف من الشرب قائما الضرر، وحدوث الداء، كما قال لهم: أما أنا فلا آكل متكئا. انتهى."

(کتاب الحج ، باب ماجاء فی زمزم جلد 9 ص: 278،279 ط: داراحیاء التراث العربي)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."

(کتاب الکراهیة ، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به جلد 5 ص: 341 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا

(قوله فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."

(کتاب الحظر و الإباحة جلد 6 ص: 337 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں