بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشیاء خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی کرنے کا حکم


سوال

آج کل ہر دوسرا بندہ جنس جو کہ خوراک کے ضمن میں آتی ہے  وہ سٹور کرتا ہے، یہ ذخیرہ کرنا کیسا ہے؟ اور اگر جائز ہے تو کتنا عرصہ سٹور کر سکتے ہیں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں ذخیرہ اندوزی  کرنے والے کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حضرت معمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذخیرہ کرنے والا خطا کار ہے۔حضرت عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جذام اور فقر (تنگ دستی) کو مسلط کردیتے ہیں،  وہ اللہ سے بری اور اللہ اس سے بری ہو جاتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت برستی ہے، اللہ تعالیٰ نہ اس کی فرض عبادت قبول فرماتے ہیں اور نہ ہی نفل عبادت قبول فرماتے ہیں۔

تاہم مذکورہ وعیدیں ہر چیز کی ذخیرہ اندوزی سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ ان کا تعلق غذا اور کھانے پینے  وغیرہ کی  ان اشیاء سے ہے جن سے انسانی حیات وابستہ ہو، نیز اس سے متعلق  مزید تفصیل یہ ہے  کہ اجناس کی ذخیرہ اندوزی  کی وجہ سے  اگر عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو جانے کا خدشہ ہو ، مثلًا غذائی بحران ہو یا  اتنی مہنگی ہو جانے کا خطرہ ہو کہ جس سے عام لوگوں کو عرفاً  ضرر (نقصان) ہوتا ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں، ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہو گا۔

اور اگر کوئی شخص  غلہ خرید کر رکھ لیتا ہے ،  جب کہ بازار میں وہ غلہ مناسب قیمت پر مل رہا ہو اور اس سے قیمت پر فرق بھی نہ پڑے اور لوگوں کو کمی بھی محسوس نہ ہو تو یہ ممنوع ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں ہوگا۔

باقی رہا یہ سوال کہ کتنے عرصہ تک سٹور کر سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک وہ چیز بازار میں مناسب قیمت پر بکتی رہے اور لوگوں  کی حاجت مناسب داموں پر پوری ہوتی رہے، اُس وقت تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، لیکن جیسے ہی اسٹور کرنے کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھنے لگے یا لوگوں کو  کمی محسوس ہونے لگے تو اُس کو ذخیرہ  کرکے عرفی قیمت سے زیادہ بیچنا جائز نہیں ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 398):

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.
(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغةً: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعاً: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوماً  لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس». وفي رواية: «فقد برئ من الله وبرئ الله منه». قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى: «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لايقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً». الصرف: النفل، والعدل الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل: شهراً. وقيل: أكثر. وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم؛ لحصوله. وإن قلت: المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى! در منتقى، مزيداً، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.
(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس، وقال في الفصفصة: بالكسر هو نبات فارسيته إسفست، تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية، قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيراً، هداية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں