بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوت صحیحہ سے قبل طلاق کا حکم


سوال

 اگر خلوت صحیحہ سے قبل ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دے دی تو کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کو نکاح کے بعد رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات ) سے پہلےاس کا شوہر تین طلاقیں اکٹھی ایک ہی جملہ میں دے دے تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اور وہ عورت  اپنے شوہر  پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ  حرام ہوجاتی ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص  ایک ہی جملے میں لکھے  کہ تین طلاق ،  یا ایک ہی جملے میں تین طلاقیں کہ دے تو   دوبارہ اس سے شادی نہیں کرسکتے۔ اور اگر الگ الگ تین جملے  لکھے، ہر ایک میں ایک طلاق تھی ،  یا  تینوں طلاق الگ الگ دی ہوں، مثلًا: یوں کہا:  تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، اور خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی تھی تو صرف ایک طلاقِ بائن ہوگی، اس صورت میں نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔

در مختار میں ہے :

"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)."

(فتاوی شامی ،کتاب الطلاق،باب طلاق غیر المدخول بہا،ج:3،ص:286،سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ) في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل: لا اهـ وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة، فقد قيل: لايقع، وقيل: يقع، وهو أقرب إلى الصواب؛ لأن الأحكام لما اختلفت يجب القول بالوقوع احتياطاً، ثم هذا الطلاق يكون رجعياً أو بائناً ذكر شيخ الإسلام أنه يكون بائناً اهـ ومثله في الوهبانية وشرحها.

والحاصل: أنه إذا خلا بها خلوةً صحيحةً ثم طلقها طلقةً واحدةً فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقةً أخرى فمقتضى كونها مطلقةً قبل الدخول أن لاتقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارةً تكون كالوطء وتارةً لاتكون، جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطاً؛ لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لايلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدةً بخلاف هذه.

والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائناً هو الاحتياط أيضاً، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضاً؛ لأن الطلاق قبل الدخول غير موجب للعدة؛ لأنّ العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطاً، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة؛ ولأنّ الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائناً، وإذا كان الأول لاتعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح: طلاق بائن آخر، فإنه يفيد أن الأول بائن أيضاً، ويدل عليه ما يأتي قريباً من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول، فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولاً وثانياً وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك.

وأجاب ح: بأن المراد التشبيه من بعض الوجوه وهو أن في كل منهما وقوع طلاق بعد آخر. اهـ. وأما الجواب بأن البائن قد يلحق البائن في الموطوء فلا يدفع المخالفة المذكورة فافهم."

(کتاب الطلاق،باب المہر،ج:3،ص:119،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505100327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں