بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کپڑے کے موزے پر مسح کرنا


سوال

آج کل ایک دوسرے قسم کپڑے کے موزے ہیں جس پرباریک سا ربڑ چڑاہواہوتاہےایسےموزوں پر مسح کرنا جائزہے ؟

جواب

کپڑے کے ایسے موزیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو  ان پرمسح کرنا جائز ہے، اس پر مسح کرنے سے وضو ہوجائے گا۔ وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے.

(2) اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں تین میل پیدل چلنا ممکن ہو.

(3)وہ کسی  چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے  پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں،  اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

 ان کے علاوہ  کپڑے کے ایسے موزے جن میں مذکورہ بالا شرائط نہ ہو تو ایسے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں۔

سائل جن موزوں سے متعلق سوال کر رہا ہےاگر ان موزوں میں مندرجہ بالا شرئط پائی جاتی ہیں اور تجربہ سے شرائط کا پایا جانا سمجھ میں آ جائے تو مسح کرنا جائز ہو گا اور اگر تجربہ سے معلوم ہو کہ شرائط مفقود ہیں تو مسح کرنا جائز نہیں ہو گا۔

الدرالمختار مع حاشیتہ رد المحتار میں ہے:

"(أو جوربيه) ولو من غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف"

وفي رد المحتار تحته:

"وأقول: الظاهر أنه إذا وجدت فيه الشروط يجوز وأنهم أخرجوه لعدم تأتي الشروط فيه غالبا يدل عليه ما في كافي النسفي حيث علل عدم جواز المسح على الجورب من كرباس بأنه لا يمكن تتابع المشي عليه فإنه يفيد أنه لو أمكن جاز ويدل عليه أيضا ما في ط عن الخانية أن كل ما كان في معنى الخف في إدمان المشي عليه وقطع السفر به ولو من لبد رومي يجوز المسح عليه ا هـ 

قوله ( على الثخينين ) أي اللذين ليسا مجلدين ولا منعلين نهر.وهذا التقييد مستفاد من عطف ما بعده عليه وبه يعلم أنه نعت للجوربين فقط كما هو صريح عبارة الكنز وأما شروط الخف فقد ذكرها أول الباب ومثله الجرموق ولكونه من الجلد غالبا لم يقيده بالثخانة المفسرة بما ذكره الشارح لأن الجلد الملبوس لا يكون إلا كذلك عادة. قوله ( بحيث يمشي فرسخا ) أي فأكثر كما مر وفاعل يمشي ضمير يعود على الجورب والإسناد إليه مجازي أو على اللابس له والعائد محذوف أي به قوله ( بنفسه ) أي من غير شد ط قوله ( ولا يشف ) بتشديد الفاء من شف الثوب رق حتى رأيت ما وراءه من باب ضرب مغرب، وفي بعض الكتب ينشف بالنون قبل الشين من نشف الثوب العرق كسمع ونصر شربه  قاموس."

(كتاب الطهارة، باب المسح على الخفين،ج:1،ص: 269،ط. سعيد)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

" لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير". 

 (كتاب الطهارات، باب المسح علي الخفين، ج:1،ص: 157،ط:دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں