بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج گرہن اور حاملہ خواتین پر اس کے اثرات کی حقیقت


سوال

ہندوستان میں حاملہ خواتین کو کیا کیا احتیاط کرنا چاہیے؟ اور کس وقت؟ آج کے چاند گرہن کے حساب سے وقت بتائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ  سورج اور چاند گرہن اللہ تعالی کی قدرت  کی نشانیاں ہیں،  ان نشانیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے  وہی اللہ تعالی ان کو ماند  کردینے پر بھی قادر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال  کے بعد  سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات  یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدے کی نفی فرمائی، حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو۔

لہذا چاند گرہن  اور سورج گرہن کے وقت  ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات  کے مطابق  اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر  نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے۔

باقی چاند گرہن اور سورج گرہن کی وجہ سے عام انسانوں یا حاملہ خواتین اور ان کے حمل پر مختلف قسم کے اثرات پڑنے سے یا اس وقت کھانے پینے سے یا گھر کے کام انجام دینے سے متعلق جو باتیں عوام میں مشہور ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،اس دن کھانا پینا یا گھر کے کام انجام دینا جائز ہے، باقی حالتِ حمل میں کیا کیا احتیاط کرنا چاہیے، اس کے متعلق طبیب سے مشاورت کی جائے۔

حدیث میں ہے :

"حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود مارأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»."

(صحیح بخاری، کتاب الکسوف، باب الذکر فی الکسوف، ج: 2، ص: 39، ط: مطبعة الکبری الأمیریة)

وفيه أيضاّ:

"حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا زائدة، قال: حدثنا زياد بن علاقة، قال: سمعت المغيرة بن شعبة، يقول: انكسفت الشمس يوم مات إبراهيم، فقال الناس: انكسفت لموت إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لاينكسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتموهما، فادعوا الله وصلوا حتى ينجلي»."

(صحیح بخاری، کتاب الکسوف، باب الذکر فی الکسوف، ج: 2، ص: 39، مطبعة الکبری الأمیریة)

عمدۃ القاری میں ہے :

" أنه صلى الله عليه وسلم جعل ما سيقع كالواقع إظهاراً لتعظيم شأن الكسوف وتنبيهاً لأمته أنه إذا وقع بعده يخشون أمر ذلك ويفزعون إلى ذكر الله والصلاة والصدقة، لأن ذلك مما يدفع الله به البلاء".

(کتاب الکسوف، ج: 7، ص: 89، ط: دار إحیاء التراث العربی)

اغلاط العوام میں ہے :

’’مشہور ہے کہ چاند اور سورج کے گہنے کے وقت کھانا پینا منع ہے، سو اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ البتہ وہ وقت توجہ الی اللہ کا ہے، اس وجہ سے کھانے پینے کا شغل ترک کردینا اور بات ہے۔ رہا یہ کہ دنیا کے تمام کاروبار، بلکہ گناہ تک تو کرتا رہے اور صرف کھانا پینا چھوڑ دے، یہ شریعت کو بدل ڈالنا اور بدعت ہے۔‘‘

(ص:191،زمزم پبلشرز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں