بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کا امام کے ساتھ سجدہ سہو اور سلام پھیرنے کا حکم


سوال

 اگر امام سجدہ سہو کرے اور ایک مقتدی مسبوق ہے تو آیا اس کو سجدہ کرنے  کے لیے سلام پھیرنا پڑے گا یا بس سلام پھیرے بغیر سجدہ میں چلا جائے ؟

جواب

واضح رہے کہ  مسبوق امام کے ساتھ  سجدہ سہوہ میں  سلام نہیں  پھیرے گا، بغیر سلام پھیرے ہی سجدہ کرے گا۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"ولا ‌يشترط ‌أن ‌يكون ‌مقتديا به وقت السهو حتى لو أدرك الإمام بعد ما سها يلزمه أن يسجد مع الإمام تبعا له".

(كتاب الصلاة ،فصل سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود،ج:1،ص:128،ط:ماجديه)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والمسبوق يسجد مع إمامه مطلقا)سواء كان السهو قبل الاقتداء أو بعده.

"(قوله والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود لأنه لا يتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، فإن سلم فإن كان عامدا فسدت وإلا لا، ولا سجود عليه إن سلم سهوا قبل الإمام أو معه؛ وإن سلم بعده لزمه لكونه منفردا حينئذ بحر، وأراد بالمعية المقارنة وهو نادر الوقوع كما في شرح المنية. وفيه: ولو سلم على ظن أن عليه أن يسلم فهو سلام عمد يمنع البناء".

(الدرالمختار مع ردالمحتار ،باب سجود السهو، ج:2 ،ص:82،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں