بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوان سال بیٹے کا ماں کے ساتھ سونا کیسا ہے؟


سوال

 میری عمر 35 سال ہے میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، میرے دونوں بھائی باہر کے ملک میں رہتے ہیں اور بہن کی شادی ہو چکی ہے، میری والدہ جن کی عمر 60 سال ہے میں ان کے ساتھ ایک ہی بستر پر سوتا ہوں  ہمارا کمبل الگ الگ ہوتا ہے اورہم فاصلے پر سوتے ہیں کیا یہ شرعاً جائز ہے؟

جواب

حدیث شریف میں ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کی تادیب کرو اور ان کے بستر علیحدہ کردو، لہذا پینتیس سالہ  بیٹے کا ایک بستر پر اپنی والدہ کے ساتھ سونا درست نہیں ہے، البتہ اگر  ایک کمرے  میں چار پائی اور بستر  الگ الگ ہوں تو   اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، و اضربوهم عليها وهم أبناء عشر، وفرقوا بينهم في المضاجع» . رواه أبو داود، وكذا رواه في " شرح السنة " عنه.

و في الشرح: (وفرقوا) : أمر من التفريق (بينهم) : أي: بين البنين والبنات على ما هو الظاهر، ويؤيده ما قاله بعض العلماء، ويجوز للرجلين أو المرأتين أن يناما في مضجع واحد ; بشرط أن تكون عورتهما مستورة بحيث يأمنان التماس المحرم. وقال ابن حجر: بهذا الحديث أخذ أئمتنا فقالوا: يجب أن يفرق بين الإخوة والأخوات فلايجوز حينئذ تمكين ابنين من الاجتماع في مضجع واحد، والظاهر أن قوله: فلا يجوز إلخ، من كلامه، وهو غير مفهوم من كلام أئمته فتأمل. (في المضاجع): أي: المراقد. وقال الطيبي: لأن بلوغ العشر مظنة الشهوة، وإن كن أخوات، وإنما جمع الأمرين في الصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظةً لأمر الله تعالى؛ لأن الصلاة أصل العبادات، وتعليما لهم المعاشرة بين الخلق، وأن لا يقفوا مواقف التهم فيجتنبوا محارم الله تعالى كله (رواه أبو داود، وكذا رواه في: شرح السنة عنه) : قال ميرك: ورواه أبو داود، والحاكم من رواية عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، واللفظ لأبي داود، وراوياه الترمذي، وابن خزيمة من رواية: عبد الملك بن الربيع بن سبرة الجهني عن أبيه عن جده بدون قوله: وفرقوا إلخ. قال الترمذي: حسن صحيح، وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم".

(کتاب الصلاۃ، ج: 2، صفحہ: 512، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں