بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن مسجد پُر ہوجانے کی صورت میں گلی میں بنائی گئئ صفوں میں نماز پڑھنے والوں کی اقتداء کا حکم


سوال

جمعہ کی نماز میں جب اکثر لوگ لیٹ ہو جاتے ہیں تو پہلے تو مسجد مکمل ہوتی ہے،  اس کے بعد مسجد کی جنوب میں گلی ہے تو لوگ وہاں پر صفیں بچھا لیتے ہیں،  اور پھر اس کے پیچھے صفیں بنتی چلی جاتی ہیں،  تو کیا یہ عمل ٹھیک ہے یا نہیں؟ یہ بتا دیں کہ مسجد میں جگہ مکمل ہونے کہ بعد صفیں بنانے کا کیا طریقہ کار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اقتداء درست ہونے کے لیے  امام اور مقتدی کی جگہ  کا متحد ہونا شرط ہے، لہذا اگر امام اور مقتدی اور دوسری صفوں کے درمیان شارع عام ہو ( یعنی ایسا کشادہ راستہ ہو  جہاں سے گاڑی وغیرہ گزرسکے) یا ایسی وسیع نہر ہو جس سے چھوٹی کشتی گزرسکے، یا حوض شرعی (دہ در دہ)  ہو، تو یہ اشیاء (شارع عام، وسیع نہر، حوضِ شرعی) مسجد کے اندر بھی اتصال سے مانع ہیں، اس لیے ان رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے اقتداءصحیح نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں مسجد  نمازیوں سےپُر ہوجانے کی صورت میں مسجد سے باہر جنوبی گلی میں متصل صفوں اور مسجد میں موجود صفوں کے درمیان اگر عام راستہ اور گزر کاہ یا دو صفوں کے بقدر فاصلہ نہیں ہے، تو مسجد سے باہر والی صفوں کا اتصال برقرار ہے، اور ان کی اقتداء متعلقہ امام کے پیچھے درست ہے، اور اگر مسجد سے باہر کی صفوں  مذکورہ گلیوں اور مسجد میں موجود صفوں کے درمیان عام راستہ اور سواری گزرنے کی گزرگاہ ہو یا دو صفوں شارع عام کے بقدر فاصلہ ہے تو گلی میں موجود صفوں میں نماز پڑھنے والوں کی اقتداء متعلقہ امام کے پیچھے درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی(الدرّ المختار وردّالمحتار)  میں ہے :

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقاً ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقاً.

 (قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اهـ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لا يمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله: ولو زورقاً) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لا يكون طريق مثله لا يمنع سواء كان فيه ماء أو لا...... (قوله: ولو في المسجد) صرح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس".

( کتاب الصلوٰۃ، باب الامامة، ج:1، ص:585، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں