بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جوتے پہن کر نماز


سوال

کیامسجد میں بوٹوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے؟ اور کن صورتوں میں پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

جوتے  اگر ایسے ہوں  کہ سجدے میں وہ پیروں کی انگلیاں زمین پر لگنے سے مانع نہ ہوں اور ناپاک نہ ہوں ،تو ایسے جوتوں میں اگر نماز پڑھ لی جائے،(اگرچہ مسجد میں ہی کیوں نہ ہو) درست ہوجائے گی۔  اور  نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ  سے بھی جوتے پہن کر نماز پڑھنا منقول ہے۔

البتہ آج کل عرفاً  یہی مناسب ہے کہ جوتوں کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے ، کیوں کہ آج کل مساجد میں فرش اور قالین ہوتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجدِ نبوی کا فرش کچا تھا، یعنی  زمین پر چھوٹے چھوٹے سنگریزے بچھے ہوئے تھے، جب کہ موجودہ زمانے میں مساجد میں ماربل، ٹائل وغیرہ لگاکر، اس پر قالین وغیرہ بچھا کر انہیں صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام کیا جاتاہے، گلی کوچوں سے لوگ جوتے پہن کر آئیں اور اسی حالت میں مسجد میں جوتوں میں نماز  پڑھیں تو مسجد کی تلویث کا خطرہ  رہے گا۔

ہاں اگر  کسی جگہ  جوتوں میں نماز پڑھنے کی ضرورت پیش آجائے تو  جوتوں میں نماز پڑھنا مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ درست ہے۔ (مستفاد:فتاویٰ محمودیہ، ج ۱۵،  ص ۱۸۵، ط:فاروقیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وصلاته فيهما) أي في النعل والخف الطاهرين أفضل؛ مخالفةً لليهود، تتارخانية.

وفي الحديث: " «صلوا في نعالكم، و لاتشبهوا باليهود» رواه الطبراني كما في الجامع الصغير رامزًا لصحته. وأخذ منه جمع من الحنابلة أنه سنة، و لو كان يمشي بها في الشوارع؛ لأنّ النبي صلى الله عليه وسلم وصحبه كانوا يمشون بها في طرق المدينة ثم يصلون بها.

قلت: لكن إذا خشي تلويث فرش المسجد بها ينبغي عدمه وإن كانت طاهرةً. و أما المسجد النبوي فقد كان مفروشًا بالحصى في زمنه صلى الله عليه وسلم بخلافه في زماننا، و لعل ذلك محمل ما في عمدة المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب، تأمل."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 657)،[فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر]، باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں