بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جوتے میں لفظ اللہ لکھا ہونا


سوال

جوتے خرید لیے جس پر واضح طور پر اللہ کا نام لکھا ہے۔ دینی رائے چاہیے!

جواب

اگر کسی جوتے پر واضح طور پر لفظِ اللہ لکھا ہوا نظر آ رہا ہو تو ایسے جوتے کو ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے استعمال کی وجہ سے باری تعالیٰ کے نام کی بے حرمتی ہوتی ہے، اور ایسے جوتے بنانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جائی بھی کرنا چاہیے، لیکن عام طور پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس معاملہ میں لوگ محض شک اور وہم   کی بنیاد پر ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ جوتے میں فلاں فلاں لفظ لکھا نظر آ رہا ہے، در حقیقت ایسا کچھ نہیں ہوتا، اور شریعت میں اوہامِ فاسدہ کی طرف دھیان نہ کرنے کا حکم ہے؛ لہذا اس قسم کے معاملات میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی سمجھ دار اور سلیم الطبع شخص کو دکھا کر رائے حاصل کر لینا مناسب ہو گا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 146):

"(وعن القاسم بن محمد) أي: ابن أبي بكر الصديق أحد الفقهاء السبعة المشهورين بالمدينة من أكابر التابعين، وكان أفضل أهل زمانه. قال يحيى بن سعيد: ما أدركنا بالمدينة أحدا نفضله على القاسم بن محمد، روى عن جماعة من الصحابة منهم عائشة ومعاوية، وعنه خلق كثير، مات سنة إحدى ومائة، وله سبعون سنة. (أنّ رجلًا سأله فقال: إني أهم) : بكسر الهاء، وتخفيف الميم (في صلاتي) : يقال: وهمت في الشيء بالفتح أهم وهما إذا أذهب وهمك إليه، وأنت تريد غيره، ويقال: وهمت في الحساب أوهم، وهما إذا غلطت فيه، وسهوت (فيكبر) : بالموحدة المضمومة أي: يعظم (ذلك) أي: الوهم (علي) : وروي بالمثلثة من الكثرة أي: يقع كثيرا هذا الوهم علي (فقال له: امض في صلاتك) : سواء كانت الوسوسة خارج الصلاة، أو داخلها، ولا تلتفت إلى موانعها (فإنه لن يذهب ذلك عنك) : فإنه ضمير للشأن، والجملة تفسير له، وذلك إشارة إلى الوهم المعني به الوسوسة، والمعنى لا يذهب عنك تلك الخطرات الشيطانية، (حتى تنصرف) أي: تفرغ من الصلاة (وأنت تقول) : للشيطان صدقت (ما أتممت صلاتي) : لكن ما أقبل قولك، ولا أتمها إرغاما لك، ونقضا لما أردته مني، وهذا أصل عظيم لدفع الوساوس، وقمع هواجس الشيطان في سائر الطاعات، والحاصل أن الخلاص من الشيطان إنما هو بعون الرحمن، والاعتصام بظواهر الشريعة، وعدم الالتفات إلى الخطرات، والوساوس الذميمة، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم (رواه مالك)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں