بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمع بین الصلاتین سفر میں جائز ہے یا نہیں؟


سوال

عرض ہے کہ جمع بین الصلاتین فی السفر کا کیا حکم ہے؟

اگر کوئی شخص ہوائی جہاز میں سفر کرنے والا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ ہوائی جہاز میں نماز فوت ہوگیا تو کیا اس کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کر سکتا ہے؟

اسی طرح کیا کسی اور عذر سے جمع حقیقی ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنا ضروری ہے چاہے سفر کی حالت ہو یا حضر ہو، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے، قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے:

"بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ میں ادا کرنا فرض ہے"۔

( اِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُوٴمِنِیْنَ كِتَاباً مَّوْقُوْتاً (سورة النساء ۱۰۳)

بصورتِ مسئولہ شرعاً ہرنماز  کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے  اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجر کی نمازہو، یاظہر کی نمازہو، یاعصر کی نمازہو، یامغرب ہو، یاعشاء ہو،یا جمعہ ہو؛ لہذا ان نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنافرض ہے، البتہ ایامِ حج کے دوران نو (9) ذی الحج کو عرفہ میں زوال کے بعد  (ظہر کے وقت میں) ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھنا اور غروب آفتاب کے بعد  مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء کی نماز (عشاء کے وقت میں) جمع کرکے پڑھنا ضروری ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر خواہ وہ سفر ہو یا حضر، نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایک وقت میں دو نمازیں پڑھنے سے بے وقت پڑھی جانے والی نماز درست ہوگی،  نیز ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

بعض احادیث میں اس حوالے سے جو منقول ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر سفر میں کسی وجہ سے یہ صورت اختیار کرلی جائے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں ادا کیا جائے اور دوسری نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے توضرورت کے موقع پر اس کی اجازت ہے، مثلاً ظہر کی نماز کے آخری وقت میں ظہر ادا کرکے عصر کی نماز ابتداءِ وقت میں پڑھ لی جائے، یا مغرب انتہائی وقت میں پڑھ کر عشاء کی نماز ابتدائی وقت میں ادا کرلی جائے؛ تاکہ بار بار سفر روک کر پڑاؤ نہ ڈالنا پڑے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

حنفی کے لیے سفر میں بھی دو نمازیں جمع کرنا جائز نہیں

اللہ تعالی کے ارشاد ہے:

"{وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ} ."(سورة المعارج۳۴)

ترجمہ:" اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، مفسر قرآن ابن کثیر ، اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔"

صحیح البخاری  میں ہے:

"عن عبد الرحمن، عن عبد الله رضي الله عنه قال:‌ما ‌رأيت ‌النبي صلى الله عليه وسلم ‌صلى ‌صلاة بغير ميقاتها، إلا صلاتين: جمع بين المغرب والعشاء، وصلى الفجر قبل ميقاتها."

(كتاب الصلاة،‌‌باب: متى يصلي الفجر بجمع [صلاة الفجر بالمزدلفة] ٦٠٤/٢،ط دار ابن كثير)

ترجمہ:" میں نے نبی کریم ﷺ  کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں۔"

سنن الترمذی  میں ہے:

"حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف البصري، قال: حدثنا المعتمر بن سليمان ، عن أبيه ، عن حنش ، عن عكرمة ، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «‌من ‌جمع ‌بين الصلاتين من غير عذر» فقد أتى بابا من أبواب الكبائر."

( باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر،٢٣١/١،ط: : دار الغرب الإسلامي)

ترجمہ: "جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة).(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء». وعن ابن مسعود مثله'.

(كتاب الصلاة،٣٨١/١،  ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں